نائن الیون کے ہائی جیکرز نے پاکستانیوں سے تربیت لی تھی؟

 

 

 

معروف اینکر پرسن اور صحافی جاوید چوہدری نے دعوی کیا ہے کہ دسمبر 1999 میں جن پاکستانی ہائی جیکرز نے مولانا مسعود اظہر کی رہائی کے لیے بھارتی طیارہ اغوا کیا تھا انہوں نے بعد میں امریکہ میں نائن الیون حملے کرنے والے ہائی جیکرز کو بھی تربیت دی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارتی طیارہ اغوا کرنے والے ہائی جیکرز اپنے مطالبات پورے ہونے کے بعد واپس پاکستان جانے کی بجائے کابل میں ہی رک گئے تھے۔ ان ہائی جیکرز نے بعد میں ان سعودی شہریوں کو جہاز اغوا کرنے کی تربیت دی جنہوں نے نائن الیون حملوں کے روز کئی امریکی طیارے اغوا کر کے تباہ کیے تھے۔

 

روزنامہ ایکسپریس کے لیے اپنی تحریر میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ 24 دسمبر 1999 کو انڈین ائیرلائنز کا ایک طیارہ کھٹمنڈو سے ہائی جیک کر لیا گیا تھا۔ یہ آئی سی 814 فلائیٹ تھی جس میں 179 مسافر اور عملے کے 11 افراد سوار تھے‘ ہائی جیکرز جہاز کو پہلے امرتسر‘ پھر دوبئی اور پھر قندہار لے گئے۔ یہ طیارہ حرکت المجاہدین نامی جہادی تنظیم نے اغواء کیا تھا اور اس کا مقصد بھارتی قید میں موجود مولانا مسعود اظہر اور ان کے ساتھیوں کی رہائی تھی۔ یاد رہے کہ مولانا مسعود اظہر نے رہائی پانے کے بعد پاکستان پہنچ کر جیش محمد نامی جہادی تنظیم تشکیل دی تھی جو بعد ازاں جموں کشمیر میں سرگرم عمل رہی۔

 

جاوید چوہدری کے مطابق بھارتی طیارے کی ہائی جیکنگ کا منصوبہ بہاولپور سے تعلق رکھنے والے مولانا مسعود کے دو بھائیوں ابراہیم اور جہانگیر نے تیار کیا تھا۔ اس آپریشن کے لیے پانچ کروڑ روپے کی اخراجاتی رقم مبینہ طور پر کراچی کے بزنس مینوں سے اکٹھی کی گئی تھی‘ ہائی جیکرز میں کراچی کے تین نوجوان شاہد اختر سید‘ سنی احمد قاضی اور ظہور مستری بھی شامل تھے جب کہ چوتھا شخص شاکر احمد سکھر اور ابراہیم اطہر بہاولپور سے تعلق رکھتا تھا‘ ابراہیم اطہر مولانا مسعود کا سگا بھائی تھا۔ ان پانچ لوگوں نے 190 مسافروں سے بھرا ہوا جہاز کھٹمنڈو سے اغواء کیا۔ ان ہائی جیکرز کو افغان طالبان کی بھرپور مدد حاصل تھی‘ ہائی جیکرز سے ڈیل کرنے والی مذاکراتی ٹیم میں بھارت کے آج کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول بھی شامل تھے۔

 

بہرحال جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ قصہ مختصر، انڈیا نے ہائی جیکرز کے مطالبے پر مولانا مسعود اظہر‘ مشتاق احمد زرگر اور احمد عمر سعید شیخ کو رہا کر دیا۔ بعد ازاں مولانا مسعود اظہر کی جہادی تنظیم جیش محمد پر جموں کشمیر میں بھارتی فوجیوں پر خودکش حملے کروانے کا الزام لگا اور شیخ احمد عمر سعید کو امریکی صحافی ڈینیل پرل کے قتل کے جرم میں سزائے موت سنا دی گئی۔

 

اس ہائی جیکنگ میں سب سے اہم کردار افغانستان کی طالبان حکومت کا تھا۔ ہائی جیکرز نے کھٹمنڈو سے جہاز اغوا کرنے کے بعد دبئی کا چکر لگایا اور ری فیولنگ کے بعد کابل میں لینڈ کر گئے جہاں اس زمانے میں ملا محمد عمر کی حکومت تھی۔

طالبان حکومت نے ہائی جیکرز کے خلاف کمانڈو آپریشن کرنے کی بجائے یہ موقف اختیار کیا کہ وہ اپنی سرزمین پر کوئی خون خرابہ نہیں چاہتے، لہذا بھارتی حکومت کو ہائی جیکرز کے تمام مطالبات ماننے پڑے۔ بھارتی قید سے مولانا مسعود اظہر کی رہائی کے بعد بھائی لوگ انہیں پرائیویٹ ایمبولینس میں ڈال کر قندہار سے کراچی لے آئے اور سی آئی اے اور آئی ایس آئی کو کانوں کان خبر نہ ہو سکی۔

 

جاوید چوہدری کے مطابق یہ ایک بہت بڑا انٹیلی جنس فیلیئر تھا جو ثابت کرتا تھا کہ اداروں میں ان کے سہولت کار موجود تھے۔ یہی وجہ تھی کہ رہائی کے بعد تمام جیکرز بھی غائب ہو گئے اور ان میں سے ایک بھی اج تک گرفتار نہیں ہوا۔ جاوید چوہدری دعوی کرتے ہیں کہ امریکی سی آئی اے کو 11 ستمبر 2001 کے ٹوئن ٹاورز حملوں کے بعد پتا چلا کہ انڈین جہاز اغوا کرنے والے پانچوں ہائی جیکرز کابل میں افغان طالبان کے پاس ہی رک گے تھے اور وہ پاکستان آئے ہی نہیں تھے۔ انھوں نے بعدازاں نائین الیون کے ہائی جیکرز کو طیارے اغواء کرنے اور مسافروں کو قابو کرنے کی تربیت بھی دی۔

 

جاوید چوہدری کے مطابق بھارتی طیارہ اغوا کرنے والے ہائی جیکرز افغانستان میں  مہینوں القاعدہ کے لوگوں کو ہائی جیکنگ کی ٹریننگ دیتے رہے۔ لیکن یہ انکشاف لرزہ خیز ثابت ہوا‘ اگر تو طالبان صرف افغانستان تک محدود رہتے‘ وہ اپنا نظریہ دوسرے ملکوں میں سمگل نہ کرتے‘ وہ ائیر انڈیا کی ہائی جیکنگ میں شامل نہ ہوتے، ہائی جیکرز کو پناہ نہ دیتے اور نائین الیون حملوں میں ملوث نہ ہوتے تو دنیا شاید انہیں برداشت کر لیتی، لیکن جب ان کا ماڈل سرحدوں سے باہر نکلنے لگا اور یہ ہائی جیکنگ جیسی وارداتوں میں ملوث ہو گئے تو پھر طالبان ناقابل برداشت ہو گئے۔

 

جاوید چوہدری کے مطابق آپ اگر اس منظر نامے کو ذہن میں رکھیں تو آپ کو نواز شریف کی دوسری حکومت کی رخصتی اور جنرل پرویز مشرف کی آمد کی وجہ سمجھ آ جائے گی۔ نواز شریف دراصل جنرل ضیاء الحق کی جہادی سوچ کی توسیع تھے۔ اسی لیے 1997 میں دو تہائی اکثریت لینے کے بعد وہ امیرالمومنین بننے کا سوچ رہے تھے‘ میاں صاحب نے 1998 میں ایٹمی دھماکے بھی کر دیے تھے لہٰذا افغانستان میں طالبان‘ پاکستان میں فروغ پاتی ہوئی طالبان سوچ‘ نواز شریف کی دو تہائی اکثریت اور اوپر ہماری ایٹمی طاقت سے دنیا ڈر گئی۔ ایسے میں اسے اب جنرل پرویز مشرف جیسا کوئی لبرل جرنیل چاہیے تھا۔ چناںچہ جنرل پرویز مشرف آیا اور اس نے نائن الیون کے بعد جنرل ضیاء الحق کی بچھائی جائے نماز لپیٹنا شروع کر دی۔ اس نے افغانستان اور پاکستان دونوں سے جہادی سوچ کے لوگ پکڑ کر امریکا کے حوالے کیے۔ یہ اور بات کہ نائن الیون کے حملوں کے بعد امریکہ نے افغانستان پر قبضہ تو کر لیا لیکن بالآخر اسے اقتدار افغان طالبان کے حوالے کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

 

Back to top button