ڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ پاک بھارت جنگ بندی کا کریڈٹ لے لیا

امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ پاک بھارت جنگ بندی کا کریڈٖٹ خود کو دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے اس معاملے کو تجارت کے ذریعے حل کردیا ہے ، انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان اوربھارت کےساتھ بڑے تجارتی معاہدے کرنے جارہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس میں جنوبی افریقہ کے صدر سےملاقات کےبعد صحافیوں سے گفتگو میں صدر ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی معاہدے کی تعریف کی۔
انہوں نےایک بار پھر جنگ بندی کا کریڈٹ لیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ بڑے معاہدے کر رہے ہیں، دونوں ممالک کےدرمیان مسئلہ بڑے سے بڑا، گہرے سے گہرا اور بدترین ہوتا جا رہا تھا۔
انہوں نےجنوبی افریقہ کے صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہ آپ دیکھیں کہ ہم نے پاکستان اور بھارت کے ساتھ کیا کیا؟ ہم نے پورے معاملےکو حل کیا اور میرا خیال ہے کہ میں نے یہ تجارت کے ذریعے کیا، اور ہم بھارت اور پاکستان کے ساتھ بڑے معاہدے کرنےجارہے ہیں۔
انہوں نےکہا کہ میں نے ان سےکہا، آپ لوگ کیا کر رہے ہیں؟، کسی نہ کسی کو تو آخر میں گولی چلانی ہی تھی،لیکن صورتحال بدتر ہوتی جا رہی تھی، فائرنگ میں اضافہ ہو رہا تھا، مسئلہ مزید پیچیدہ اور مختلف ملکوں میں پھیلتا جا رہا تھا۔
ہم نے ان سے بات کی،اور میرا خیال ہے کہ ہم نے معاملے کو کسی حد تک حل کر لیا۔ لیکن دو دن بعد کچھ اور ہو جاتا ہے، اور الزام مجھ پر ڈال دیا جاتا ہے،وہ کہتے یہ ٹرمپ کی وجہ سے ہوا۔
صدر ٹرمپ نےکہا کہ پاکستان میں کچھ شاندار لوگ ہیں، اور وہاں ایک زبردست لیڈر بھی موجود ہے، بھارت میں میرا دوست نریندر مودی ہے،وہ ایک بہترین انسان اور لیڈر ہے، میں نے دونوں کو فون کیا، اور ہم نے مل کر کچھ اچھا کیا۔
امریکی صدر نےکہا کہ ہم نے روس اور یوکرین کے مسئلے کو حل کرنے کی بھی کوشش کی، میں نے پرسوں صدر پیوٹن سے تقریباً ڈھائی گھنٹے تک تفصیلی بات چیت کی، وہاں ہر ہفتے 5 ہزار فوجی مررہے ہیں، اس میں شہروں اور قصبات میں رہنے والوں کی تعداد الگ ہے۔
ٹرمپ کا جنوبی افریقہ پر سفید فاموں کی نسل کشی کا الزام :
خبر رساں ادارے رائٹرزکی رپورٹ کےمطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو وائٹ ہاؤس میں ایک کشیدہ ملاقات کے دوران جنوبی افریقی صدر سریل رامافوسا سے ملاقات کی اور سفید فام افریقیوں کی نسل کشی اور زمین کی ضبطی کے بارے میں دھماکا خیز جھوٹے الزامات لگائے، جو ان کی فروری میں یوکرینی رہنما وولودیمیر زیلنسکی کے ساتھ ملاقات کی طرح ایک اچانک حملے کی یاد دلاتے ہیں۔
جنوبی افریقہ دنیا میں سب سےزیادہ قتل کے واقعات والے ممالک میں سے ایک ہے، لیکن متاثرین کی اکثریت سیاہ فام افراد ہوتی ہے۔
رامافوسا نے بدھ کی ملاقات کواپنےملک کے امریکا کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ بہتر بنانے کے لیے ایک موقع کے طور پر استعمال کرنے کی امید کی تھی، خاص طور پر اس کے بعد کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی افریقہ کی بہت ضروری امداد منسوخ کر دی، سفید فام اقلیت آفریکانرزکو پناہ دی، ملک کے سفیر کو نکال دیا اور اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے مقدمے پر تنقید کی۔
جنوبی افریقہ کے صدرجارحانہ استقبال کی توقع کے ساتھ آئے تھے اور اپنی ٹیم کے ساتھ مقبول سفید فام جنوبی افریقی گالف کھلاڑیوں کو بھی لے کرآئے تھے، اور کہا کہ وہ تجارت پر بات کرنا چاہتے ہیں، امریکا، جنوبی افریقہ کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، اوراس ملک کو ٹرمپ کی زیر التوا درآمدی محصولات کی پیکیج کے تحت 30 فیصد محصول کا سامنا ہے۔
لیکن اوول آفس میں ایک منظم اور منصوبہ بند حملے کے دوران ٹرمپ نے فوراً کارروائی کرتے ہوئے جنوبی افریقہ میں سفید فاموں کےساتھ روا سلوک کے بارے میں اپنے تحفظات سے متعلق فہرست پیش کی، جنہیں انہوں نے ایک ویڈیو چلانے اور خبروں پرمبنی چند صفحات دکھا کرثابت کرنے کی کوشش کی۔
رافیل کی تباہی : ائیر فرانس کا پاکستانی حدود استعمال کرنے سے گریز
ٹرمپ کی درخواست پرروشنی کم کر دی گئی، اور ایک ویڈیو چلائی گئی، جو ایک ایسے ٹیلی ویژن پر دکھائی گئی جو عام طور پر اوول آفس میں نصب نہیں ہوتا، اس وڈیو میں سفید صلیبیں دکھائی گئیں، جنہیں ٹرمپ نے سفید فام لوگوں کی قبریں قرار دیا، اور اپوزیشن کےرہنماؤں کو اشتعال انگیز تقاریر کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ ٹرمپ نے کہا کہ ان میں سے ایک، جولیئس مالیما کو گرفتار کیا جانا چاہیے۔
یہ ویڈیو ستمبر 2020 میں ایک احتجاج کےدوران بنائی گئی تھی، جو اس وقت ہوا جب ایک ہفتہ پہلے 2 افراد کو ان کے فارم پر قتل کیا گیا تھا، سفید صلیبیں اصل قبروں کی نشاندہی نہیں کرتیں تھیں، اس احتجاج کے ایک منتظم نے اس وقت جنوبی افریقہ کی پبلک براڈکاسٹرکو بتایا تھا کہ یہ ان کسانوں کی نمائندگی کرتی ہیں جوسالوں کے دوران قتل ہو چکے ہیں۔
ٹرمپ نے کہاکہ’ ہمارے پاس بہت سےلوگ ہیں جو محسوس کرتے ہیں کہ انہیں ظلم و ستم کا سامنا ہے، اور وہ امریکا آ رہے ہیں’۔
امریکی صدر نے مزید کہا کہ ’لوگ اپنی حفاظت کے لیے جنوبی افریقہ سے فرار ہو رہے ہیں،ان کی زمینیں ضبط کی جا رہی ہیں، اور کئی معاملات میں انہیں قتل کیا جا رہا ہے‘۔
یہ بیان ایک پرانی سازشی تھیوری کی عکاسی کرتا ہے جو کم از کم ایک دہائی سے عالمی دائیں بازو کے آن لائن فورمز میں گردش کر رہی ہے،صدر ٹرمپ کے قریبی ساتھی، جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے ایلون مسک نے بھی کھل کر اس تھیوری کی حمایت کی ہے، جواس ملاقات کے دوران اوول آفس میں موجود تھے۔
جنوبی افریقہ،جس نے نوآبادیاتی دور اور اپارتھائیڈ کے دوران صدیوں تک سیاہ فاموں کے خلاف سخت امتیازی سلوک برداشت کیا اور 1994 میں نیلسن منڈیلا کی قیادت میں کثیر الجماعتی جمہوریت قائم کی، ٹرمپ کے الزامات کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔
نیا زمینی اصلاحات کا قانون، جو اپارتھائیڈ کی ناانصافیوں کو دور کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، عوامی مفاد میں بغیر معاوضہ زمین ضبط کرنےکی اجازت دیتا ہے، مثلاً اگر زمین بیکار پڑی ہو، اب تک ایسی کوئی ضبطی عمل میں نہیں آئی،اور کسی بھی حکم کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
جنوبی افریقہ کے صدر کی ٹرمپ کےدعوؤں کی تردید :
جنوبی افریقہ کی پولیس نے 2024 میں پورے ملک میں 26,232 قتل ریکارڈ کیے، جن میں سے 44 واقعات زرعی کمیونٹیز سے منسلک تھے، اور ان میں سے 8 متاثرین کسان تھے۔
رامافوسا، جو ٹرمپ کے قریب کرسی پر پُرسکون بیٹھے تھے، نے ان کے دعووں کی سختی سے تردید کی اور کہاکہ اگر واقعی آفریکانر کسانوں کی نسل کشی ہو رہی ہوتی، تو میں شرط لگا سکتا ہوں کہ یہ تین حضرات یہاں نہ ہوتے۔
رامافوسا اس موقع پر گالف کھلاڑی ارنی ایلز، ریٹیف گوسن، اور ارب پتی جوہان روپیرٹ کی طرف اشارہ کر رہے تھے، جو سب سفید فام ہیں اور کمرے میں موجود تھے تاہم اس جواب سے ٹرمپ مطمئن نہیں ہوئے۔