پاکستانی موبائل مارکیٹس میں جعلی سمارٹ فونز کا فراڈ عروج پر

پاکستانی الیکٹرانک مارکیٹس میں اس وقت چین کے بنے ہوئے ڈبہ بند جعلی سمارٹ فونز کی فروخت کا دھندا عروج پر ہے اور اچھے اور سستے موبائل فون کے خواہش مند صارفین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔
کراچی کی مشہور موبائل مارکیٹس بشمول صدر، قائد آباد، طارق روڈ اور صفورا گوٹھ میں سستے داموں نئے سمارٹ فونز کے بینرز کی بھر مار ہے۔ اس تشہیری مہم کے نتیجے میں کراچی میں ڈبہ پیک سمارٹ فونز کی فروخت عروج پر ہے، تاہم یہ ڈبہ پیک موبائلز خریدنے والے صارفین کو گھر پہنچ کر پتہ لگتا ہے کہ ان کے ساتھ فراڈ ہو چکا ہے اور انہیں جعلی سمارٹ فون نئے ڈبے میں پیک کر کے فروخت کر دیا گیا ہے۔
کراچی موبائل اینڈ الیکٹرانک ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر منہاج گلفام نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اس بڑھتے ہوئے مسئلے کی نشاندہی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں صرف کراچی شہر میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں شہریوں کو جعلی سمارٹ فونز فروخت کیے گئے ہیں۔ یہ سمارٹ موبائل فونز عام طور پر پرانے یا ری کنڈیشن فونز ہوتے ہیں، جنہیں نیا ظاہر کر کے بیچا جا رہا ہے۔ خریدار کو اصل ماڈل اور وارنٹی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ لیکن انہوں نے فراڈ کا پتہ تب چلتا ہے جب 10 سے 15 دن میں ان کا موبائل فون پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے بلاک کر دیا جاتا ہے۔
یہ سمارٹ فون دراصل پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی سے منظور شدہ نہیں ہوتے، ان میں مختلف آئی ایم ای آئی استعمال کر کے ایک نیا فون بنایا جاتا ہے جو دیکھنے میں بالکل اصلی لگتا ہے۔ اس فون کی پیکنگ بھی برانڈڈ ہوتی ہے، مگر اندر سے یہ اصل حالت میں نہیں ہوتے۔
ایسے سمارٹ فونز کی قیمت نسبتاً کم رکھی جاتی ہے تاکہ خریدار کو سستا فون خریدنے پر آمادہ کیا جا سکے۔ کراچی کے زوہیب کے ساتھ بھی ایسا ہی فراڈ ہوا ہے جو اپنے پرانے فون کی سکرین مرمت کرانے صدر کی مارکیٹ گیا تھا۔ دکاندار نے انہیں مشورہ دیا کہ مرمت کی بجائے نیا فون لے لیں، جو ’ڈبہ پیک‘ ہے اور سستا بھی ہے۔ زوہیب نے کچھ اضافی رقم دے کر فون تو خرید لیا لیکن وہ صرف ایک دن بعد ہی پی ٹی اے کی جانب سے بلاک ہو گیا۔ بعدازاں معلوم ہوا کہ وہ دو نمبر فون تھا جس کے نئے ماڈل بھی اس کمپنی بنانے بند کر دیے ہیں۔
کراچی موبائل اینڈ الیکٹرانک ڈیلرز ایسوسی ایشن کی مداخلت کے بعد دکاندار نے زوہیب کو پیسے واپس کر دیے تاہم اس جیسے کئی افراد اب بھی روزانہ ملک کے مختلف حصوں میں اس فراڈ کا نشانہ بنتے ہیں اور اکثر شکایت نہیں کر پاتے۔ موبائل کٹس کا کاروبار بھی اسی فراڈ کا حصہ ہے۔ یہ وہ موبائیل کٹس ہوتی ہیں جو ڈیوٹی ادا کیے بغیر پاکستان میں لائی جاتی ہیں، ان کی نہ وارنٹی ہوتی ہے نہ ہی کوئی تصدیق۔ یہ فون کٹس فیک آئی ایم ای آئی نمبر پر چلائی جاتی ہیں۔ یہ کٹس بیرون ممالک سے سمگل شدہ حالت میں آتی ہیں اور پاکستان میں مقامی سطح پر ان میں نئے آئی ایم ای آئی نمبر لگا کر نئے فون کے طور پر مارکیٹ میں بیچ دیا جاتا ہے۔ یہ ایک منظم دھندہ ہے، جس میں کچھ دکاندار جعلی آئی ایم ای آئی نمبر جعلی وارنٹی کارڈ اور جعلی پیکنگ استعمال کر کے خریدار کو دھوکہ دیتے ہیں۔ ایسا فون عموماً کچھ دن بعد ہی بلاک ہو جاتا ہے۔
سٹاک مارکیٹ میں تیزی سرمایہ کاروں کا بجٹ پر اعتماد کا اظہار ہے : وزیر اعظم
کراچی موبائل اینڈ الیکٹرانک ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر گلفام کے مطابق انہوں نے کئی بار حکومت کو تجویز دی ہے کہ موبائل کی مارکیٹس میں کام کرنے والے ہر دکاندار کو رجسٹرڈ کیا جائے اور ان کے سسٹم کو آن لائن وارنٹی چیک اور رجسٹریشن سسٹم سے منسلک کیا جائے تاکہ دھوکہ دہی روکی جا سکے۔ان کا مشورہ تھا کہ صارفین فون خریدنے سے قبل چند اہم باتوں کا خیال رکھا کریں۔ ہمیشہ فون کی آفیشل وارنٹی چیک کریں، جو زیادہ تر برانڈز کی ایک برس کی ہوتی ہے۔ اسکے علاوہ آئی ایم ای آئی نمبر پی ٹی اے سے فوری چیک کریں تا کہ پتہ چل سکے کہ آیا فون رجسٹرڈ ہے یا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ایسے ماڈلز کے فون نہ خریدیں جو مارکیٹ میں بند ہو چکے ہوں یا جو کمپنی کی ویب سائٹ پر درج نہ ہوں۔ ایک اور احتیاط یہ ہے کہ موبائل خریدتے وقت دکاندار سے رسید ضرور لیں اور واضح طور پر تحریر کرائیں کہ یہ فون نیا، رجسٹرڈ اور برانڈڈ ہے۔