بیمار کی آپ بیتی!

تحریر: عطا الحق قاسمی ، بشکریہ : روزنامہ جنگ

بیمار پڑنے کے فوائد دیکھنے ہوں تو ہسپتال میں داخل ہو جائیں تو اس کی زیادہ برکات سامنے آئیں گی ۔میں تو کیا،لوگ اسے بیمار ہی نہیں سمجھتے جو گھر میں چارپائی پر دراز ہو۔ ’’گزیٹڈ ‘‘بیمار اس صورت میں تصور کیا جاتا ہے اگر وہ ہسپتال میں داخل ہو اور اسے ڈرپ لگی ہو نیز ارد گرد عیادت کرنے والوں کا ہجوم اسے تشویش بھری نظروں سے دیکھ رہا ہو۔ اس سے آپ کے احساس انا کی بھی تسکین ہو گی کہ کتنے ہی لوگ آپ کی بیماری پر مضطرب ہیں یا یہ کہ آپ اتنے اہم ہیں کہ بہت سے لوگ آپ کی بیماری پر دل ہی دل میں خوش ہیں تاہم اس موقع پر دل بڑا رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس قسم کے عیادتی فقرے بھی سننے میں آ سکتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ آپ کو صحت اور لمبی عمر عطا کرے ورنہ اس بیماری میں کسی کو بچتے نہیں دیکھا۔‘‘ ان فقروں کو عیادتی ہی سمجھنا چاہئے تعزیتی سمجھنے کی صورت میں آپ خدا کو اتنے عزیز ہو سکتے ہیں کہ وہ آپ کو اپنے پاس ہی بلا لے۔

اور یہ جو غیر طبقاتی معاشرے کی باتیں ہوتی ہیں، اونچ نیچ کو ختم کرنے پر زور دیا جاتا ہے سو یہ سب صحت مند لوگوں کی کج بحثیاں ہیں ورنہ بیمار لوگ تو کب کے ہسپتال کی چار دیواریوںمیں اونچ نیچ ختم کر چکے ہیں ۔یہ تو اسی وقت ختم ہو جاتی ہے جب ایک کلاس ون افسر کی بیماری اور اونچ نیچ کا جائزہ لینے کےلئے درجہ چہارم کا ایک معمولی ڈریسر اس کے بند قباکھلوا دیتا ہے۔اسی طرح ایک صحت مند شخص کے پاس سے بھنگی گزر بھی جائے تو وہ ناک بھوں چڑھاتا اور ناک پر رومال رکھتا ہے مگر یہ بیمار لوگ بھنگی کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے بڑے دوستانہ انداز میں باتھ روم تک جاتے اور پھر واپس آتے ہیں یہی نہیں بلکہ بلاامتیاز رنگ ونسل اور عہدہ و منصب ایک سا لباس پہنتے ہیں، ایک سا کھاتے ہیں اور سرخ کمبل اوڑھ کر ایک جیسے بستروں میں آرام کرتے ہیں یہ نظام جیلوں میں بھی رائج ہے لیکن ہسپتالوں کا انتظام اعلیٰ ہے اور پھر جیلوں میں نرس نہیں ہوتی بہرحال غیر طبقاتی معاشرے کے خواہاں لوگ اگر اپنی من پسندی سوسائٹی میں رہنے کے لئے بیمار ہونا گوارہ نہ کریں تو انہیں جیل بھیج دینا چاہئے!

میں بیماری کے دوران منافقوں میں گھرا ہوتا ہوں۔ مکامار کر جس کی بتیسی باہر نکالنے کو جی چاہتا ہے اسے سامنے پا کر اپنی بتیسی نکالنا پڑتی ہے پیٹھ پیچھے جس کی برائیاں کرتے نہیں تھکتے اسے منہ پر مائی باب کہتے ہیں مگر ایک حساس شخص ہی اس تکلیف دہ صورتحال سے بآسانی گزر سکتا ہے چنانچہ اگر کبھی میرے لئے وہ غیر ہیں اور میں ان کے لئے بیگانہ ہوں

پھر بھی یہ ایک رسم جہاں ہے جسے نبھانے آ جاتے ہیں

کے مصداق اس قسم کا کوئی عبداللہ ابن ابی رسم جہاں نبھانے کے لئے چلاآئے تو اس وقت یہ بیمار کی حاضر دماغی ہے کہ وہ اسے دیکھ کر ایک دلدوز چیخ مار ے، کروٹ لےکر منہ دوسری طرف پھیر لے اور اس وقت تک منہ ادھر ہی رکھے جب تک وہ اٹھ کر چلا نہیں جاتا، اس دوران ہولے ہولے کڑہنا بھی ضروری ہے اس صورت میں دنیا بھر کی اخلاقی قدریں اور معاشرتی اصول اس کی پشت پر ہوں گے۔ آہ بیچارے بامروت لوگ جو منافقوں کےساتھ وہ سلوک نہیں کر سکتے جو وہ دلی طور پر چاہتے ہیں ۔

اور پھر یہ بھی تو دیکھئے کہ آپ کو کتنی توجہ ملنا شروع ہو جاتی ہے دن میں چار مرتبہ تھرما میٹر لگایا جاتا ہے خواہ حرارت ہو یا نہ ہو۔ نبض دیکھنے کے لئے ہی سہی مگر آپ کی کلائی یوں تھامی جاتی ہے جس طرح فلموں میں ہیروہیروئن کی تھامتے ہیں۔ کچھ اس ادا سے حال پوچھا جاتا ہے کہ ’’شکر ہے پروردگار کا‘‘ کہنا ہی پڑتا ہے غرضیکہ بیمار کے چہرے پر دنوں ہی میں رونق آ جاتی ہے خواہ اس کی وجہ کچھ ہی کیوں نہ ہو اور یہ نکتہ تو بیمار پڑنے اور ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد مجھ پر کھلا کہ غالب نے پڑیئے اگر بیمار تو کوئی تیماردار نہ ہو والی بات کیوں کہی تھی شاید اس لئے کہ بیمار تو صحت یاب ہو کر گھر پہنچ جاتا ہے مگر اس کے ’’تیمار دار‘‘ ایک عرصہ تک ہسپتال کے چکر کاٹتے رہتے ہیں !ان میں سے کچھ کو تو یہ چکر بہت مہنگے بھی پڑتے ہیں کہ شادی کرنا پڑجاتی ہے اور پھر عمر بھر چکر ہی آتے ہیں۔

میں گزشتہ ماہ (بھی)ہسپتال میں داخل ہوا یہاں ’’بھی‘‘ کے استعمال کی وجہ یہ ہے کہ میں ہسپتال کے چکر لگانے کی عمر میں نہیں ہوں چنانچہ میں خود ہسپتال میں داخل ہو جاتا ہوں۔ گزشتہ ماہ ہسپتال میں ’’قیام‘‘ کے دوران ایک ڈاکٹر صاحب میرے کمرے میں آئے تو میں سگریٹ پی رہا تھا ۔غصے کے عالم میں کہنے لگے، ’’آپ کو علم ہے سگریٹ نوش کی عمر بہت کم ہوتی ہے ؟‘‘ میں نے عرض کی کہ جانتا ہوں جناب مجھے معاف کر دیں ۔انہوں نے فراخدلی سے کام لیتے ہوئے مجھے معاف کر دیا مگر اس کے بعد اگلے روز وہ روٹین کے رائونڈ پر تشریف نہیں لائے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے بہت قابل ڈاکٹر تھے :

پس نوشت:جاوید اختر کی فیض میلے میں پذیرائی سے کچھ محب الوطن پاکستانیوں کو کافی تکلیف ہوئی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ ایک اوسط درجے کا شاعر اور لکھاری ہے۔ پہلی بات تو یہ ہےکہ جاوید اختر نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ بہت بڑا شاعر یا لکھاری ہے۔ ہاں وہ اپنے ہاں بڑے شاعروں، لکھاریوں اور گلوکاروں کے اعزاز میں تقریبات ضرور منعقد کرتاہے۔ ان کے فن کی تعریف کرتا ہے اور ان کی خدمت کرکے خوش ہوتا ہے۔اسے اپنے ملک میں بھی لٹریری فیسٹیولز میں بطور کی نوٹ سپیکر کے مدعو کیا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ شاعری اور لکھاری کے علاوہ اس کی ایک پہچان بائیں بازو کی تحریک سے بھی ہے۔ وہ ایک پولیٹکل ایکٹو سٹ بھی ہے۔بھارت میں متوازی تھیٹر یا ترقی پسند تھیٹر کرنے والوں میں ایک اہم نام ہے۔بنیاد پرستی کے مقابلے میں وہ سیکولرازم کا کھل کر پرچار کرتا ہے۔ غریب اور پسے ہوئے طبقات کے حق میں آوازاٹھاتا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ وہ حرف آخر نہیں ہے۔ اس سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن جس ردِ عمل کا اظہار محب الوطن پاکستانی کررہے ہیں اس سے بہرحال حسد کی بو آرہی ہے۔

استاد کے روپ میں ناسور

Related Articles

Back to top button