تنخواہ دار طبقے کو جتنا ریلیف دے سکتے تھے دے دیا : وفاقی وزیر خزانہ

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ حکومت نے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو ہر ممکن حد تک ریلیف دیا ہے۔

اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتےہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہاکہ کوشش تھی تنخواہ دار طبقے کو جتنا ریلیف دے سکیں اتنا دیا، حقیقت یہ ہے کہ مالی گنجائش کےمطابق ہی ریلیف دے سکتے ہیں، خسارے کی وجہ سے ہر چیز قرضہ لےکر کررہے ہیں۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہاکہ تنخواہ یا پینشن کی بات ہو تو کوئی بینچ مارک ہونا چاہیے،ساری دنیا میں مہنگائی کے ساتھ اضافے کے بینچ مارک کو رکھا جاتا ہے،مہنگائی کی شرح ابھی بھی ساڑھے سات فیصد ہے،ہماری ذمہ داری ہےکہ وفاقی اخراجات کو کم کریں۔

صحافیوں کی جانب سے وزراء اور  پارلیمنٹیرینز کی تنخواہوں میں بےپناہ اضافے کے سوال پر وزیر خزانہ نے کہاکہ یہ ضرور دیکھ لیں کہ وزراء اور پارلیمنٹیرینز  کی سیلری کو کب ایڈجسٹ کیاگیا تھا، 2016 میں کابینہ کے وزراء کی تنخواہ بڑھائی گئی تھی،اگر ہر سال تنخواہ بڑھتی رہتی تو ایک دم بڑھنے والی بات نہ ہوتی۔

محمد اورنگزیب نے کہاکہ بجٹ میں ٹیرف اصلاحات کی گئی ہیں،مجموعی طور پر 7 ہزار ٹیرف لائنز ہیں جن میں سے 4 ہزار ٹیرف لائنز کو صفر کر دیا گیاہے، ٹیرف اصلاحات سے ملکی برآمدات میں اضافہ ہوگا۔

وزیر خزانہ نے کہاکہ اس سال ہم نے انفورسمنٹ کے ذریعے 400 ارب سے زیادہ ٹیکس اکھٹا کیا،دو ہی طریقے ہیں یا تو انفورسمنٹ کرلیں یا ٹیکس لگا دیں، اس حوالے سے قانون سازی کےلیے دونوں ایوانوں سے بات کریں گے۔

انہوں نے کہاکہ ایڈیشنل ٹیکس زرعی شعبے پر نہ لگانے پر بورڈ سے بات کی گئی، چھوٹے کسانوں کےلیے قرضے دیے جائیں گے۔

محمد اورنگزیب نےکہا کہ سپر ٹیکس میں بتدریج کمی کا آغاز کردیا گیا ہے اور چھوٹے کسانوں کےلیے آسان شرائط پر قرضے فراہم کیے جائیں گے تاکہ زراعت کو مستحکم بنایا جاسکے۔تاہم انہوں نے اعتراف کیاکہ کچھ اضافی ٹیکسز مجبوری کے تحت لگانے پڑے کیوں کہ مالیاتی گنجائش محدود ہے۔

عالمی مالیاتی اداروں سے متعلق وزیر خزانہ نے شکوہ کیاکہ وہ اب بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں کہ پاکستان میں قانون کا نفاذ ممکن ہے۔ ان کاکہنا تھاکہ ہم قانون پر عملدرآمد کےلیے پرعزم ہیں اور ادارہ جاتی اصلاحات کا عمل جاری رہے گا۔

وزیر خزانہ نے واضح کیاکہ حکومت نے جہاں ممکن ہوسکا ریلیف دیا ہے، لیکن مالی حقائق اور زمینی حالات کے مطابق فیصلے کیےگئے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ تنخواہ دار طبقے کو جتنا ریلیف دےسکتے تھے دیا، وزیر اعظم اور میری خواہش تھی کہ تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دیں۔پینشن اور تنخواہوں کو منہگائی کے ساتھ لنک کرنا ہے۔تنخواہوں اور پینشن کا براہ راست تعلق مہنگائی سے ہے۔مہنگائی نیچے آ رہی ہے، اسی تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ ہوگا، مہنگائی کی شرح ابھی بھی ساڑھے 7 فیصد ہے۔

محمد اورنگزیب نے کہاکہ کنسٹرکشن سیکٹر پر کافی بات ہورہی ہے اور کوشش ہےکہ اس شعبے میں ٹرانزیکشن کاسٹ کم کی جائے تاکہ اس کی ترقی کو فروغ دیا جاسکے۔

محمد اورنگزیب نے کہاکہ رواں سال ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 10.3 فیصد تک پہنچ جائےگی جب کہ آئندہ سال اسے 10.9 فیصد تک لےجانے کا ہدف ہے۔ رواں مالی سال 2.2 ٹریلین روپے کی ٹیکس وصولی میں سے 312 ارب روپے اضافی ٹیکسز کی مد میں ہوں گے۔

ان کاکہنا تھاکہ دونوں ایوانوں میں قانون سازی کے عمل کو آگے بڑھایا جائےگا تاکہ ایڈیشنل ٹیکسز کی ضرورت نہ پڑے۔اگر قانون سازی ہوجائے تو سسٹم میں موجود لیکیجز کو روکا جاسکتا ہے اور یہی راستہ ہے کہ یا تو ہم مؤثر انفورسمنٹ کریں یا اضافی ٹیکس لگانے پر مجبور ہوں۔

انہوں نے اپیل کی کہ پارلیمان قانون سازی میں حکومت کا ساتھ دے تاکہ عوام پر بوجھ کم کیا جاسکے اور پائیدار معیشت کی بنیاد رکھی جاسکے۔

وزیر خزانہ نے واضح کیاکہ وفاقی حکومت محدود مالی گنجائش کے تحت قرض لےکر عوام کو ریلیف فراہم کررہی ہے،تاہم اس بات کا ادراک ضروری ہےکہ پاؤں اتنے ہی پھیلانے چاہییں جتنی چادر ہے۔

صحافیوں نے وزیر خزانہ کی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کا بائیکاٹ کردیا

قبل ازیں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب جب پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرنے پہنچے تو ان کے ہمراہ سیکرٹری خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر بھی موجود تھے تاہم صحافیوں نے بجٹ پر ٹیکنیکل بریفنگ نہ ملنےپر پریس کانفرنس کا بائیکاٹ کردیا۔

صحافیوں نے کہاکہ 20 سال سے بجٹ کےبعد صحافیوں کو ایک ٹیکنیکل بریفنگ دی جاتی ہے لیکن اس بار حکومت کی جانب سے اس روایت کو توڑا گیا ہے۔

Back to top button