ٹرمپ سے دوستی: پاکستان کے لیے جاگتے رہنا ضروری کیوں ہے؟

صدر ٹرمپ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش میں پاکستانی سویلین اور فوجی قیادت فلسطین کے معاملے میں پڑ تو گئی لیکن اب مشکل میں پھنستی نظر آتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے مزاج کے عین مطابق مسئلہ فلسطین سلجھانے کے لیے آگے بڑھنے والے مسلم ممالک کے ساتھ دوبارہ دھوکہ کر دیا ہے اور ان کی امن تجاویز کا ڈرافٹ آگے پیچھے کر دیا ہے۔
ایسے میں تجزیہ کار اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ پاکستان امریکہ تعلقات کا یہ حسین موڑ کہیں شاخِ نازک پہ دھرا آشیانہ ثابت نہ ہو۔ یاد رہے کہ عمران خان کی طرح صدر ٹرمپ میں بھی یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف ہائی وے پر یوٹرن لے سکتے ہیں بلکہ ایسا کرتے وقت وہ انڈی کیٹر دینے کا تکلف کرنے کے بھی قائل نہیں۔
جب وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی 27 ستمبر کو امریکی صدر سے ملاقات پر شادیانے بجائے جا رہے تھے تب بھی عقل والے یہی سرگوشیاں کر رہے تھے ک بھائی جاگتے رہنا، اور ٹرمپ پر نہ رہنا۔ اس ملاقات کے چند ہفتوں بعد یہ خدشات درست ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ بظاہر پاکستان ٹرمپ کے پیش کردہ مجوزہ غزہ امن منصوبے سے دوری اختیار کرنے کی کوشش کرتا نظر آ رہا ہے۔ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے واضح کیا ہے کہ یہ منصوبہ اُن نکات سے مختلف ہے جو کہ 8 مسلم ممالک نے تجویز کیے تھے۔
اسحاق ڈار کے مطابق ٹرمپ کے منصوبے میں جنگ بندی، امداد کی فراہمی اور جبری بے دخلی کے خاتمے کے اہم نکات شامل نہیں، اس لیے پاکستان اس کی تائید نہیں کرتا اور ویسے بھی یہ ہماری دستاویز نہیں ہے۔
یاد رہے کہ وائٹ ہاؤس پر امن منصوبے کے نکات شیئر کرنے اور اس سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو اور صدر ٹرمپ کی ملاقات سے گھنٹوں پہلے ہی وزیراعظم شہباز شریف نے اس امن منصوبے کا خیر مقدم کیا تھا۔ امن منصوبے کے اعلان کے موقع پر ٹرمپ نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ شہباز شریف اور عاصم منیر اُن کے غزہ منصوبے کے ’100 فیصد‘ حامی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کے ساتھ تعلق نبھانے میں دو بڑے مسائل درپیش رہیں گے۔
پہلا مسئلہ صدر ٹرمپ کی غیر مستقل مزاجی ہے کیونکہ وہ دھوپ چھاؤں جیسی طبیعت رکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مائل ہوں تو جل تھل ایک کر دیتے ہیں اور برہم ہوں تو خشک سالی جیسے ہو جاتے ہیں۔ یعنی پل میں تولا اور پل میں ماشہ ہونا انکی طبیعت کا خاصہ ہے۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں مارگلہ کے موسم کی طرح ان کا کوئی اعتبار نہیں۔ وہ دسمبر میں آگ برسانے اور جون میں یخ بستہ ہو جانے پر یکساں درجے کی قدرت رکھتے ہیں۔ ٹرمپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دوپہر کی دوستی کو سہہ پہر تک دشمنی میں بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی اہلیہ کے مطابق موصوف کو جھونکے سے بگولا بننے میں لمحہ لگتا ہے۔ ان کی دوستی اور دشمنی دونوں ہی مقامات آہ و فغاں میں سے ہیں۔
تجزیہ کار یاد دلاتے ہیں کہ ایک زمانے میں صدر ٹرمپ پاکستان پر گرجتے برستے رہے اور اسے دھوکہ دینے کا الزام دیتے رہے، پھر جب وقت بدلا تو انہوں نے عمران خان کو اس شان سے وائٹ ہاؤس بلایا کہ وہ واپسی پر ورلڈ کپ جیتنے جیسے واہمے کا شکار ہو گئے۔ عمران خان پر برا وقت آیا تو ان کے ساتھیوں نے یہ دھمکیاں دینی شروع کر دی کہ تم ٹرمپ کو اقتدار میں آنے دو، پھر دیکھنا تم لوگ وہ کرتا کیا ہے۔ لیکن جب سے ٹرمپ برسراقتدار آئے ہیں انہوں نے ایک بار بھی اڈیالہ جیل کے قیدی کا ذکر نہیں کیا۔ اب وہ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل کی تعریفیں کر رہے ہیں اور کیے ہی چلے جا رہے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایک زمانے میں عمران خان کی طرح صدر ٹرمپ کا مودی سے بھی کافی گہرا تعلق تھا۔ کہاں وہ بھائی چارا کہ مودی ’اگلی بار ٹرمپ سرکار‘ کے نعرے لگایا کرتے تھے اور کہاں اب یہ عالم کہ ٹرمپ نے مودی جی کی کمر پاکستان کے ساتھ جنگ میں گرنے والے رافیل طیاروں کے طعنوں سے لال کر رکھی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ٹرمپ چینی صدر شی پنگ کو اپنا عظیم دوست قرار دیتے تھے۔ پھر کرونا کا زمانہ آیا تو اسی عظیم دوست کو سینگوں پر لے لیا اور کرونا کو چائنا وائرس کہنے لگے۔ اس عظیم دوست کے ساتھ ان کی حالیہ ’دوستی‘ تو سارے عالم پر آشکار ہے۔ اسی طرح شمالی کوریا کے صدر کم جانگ کو طنز اور حقارت سے ’لٹل راکٹ مین‘ کہنے والے بھی ٹرمپ ہی تھے اور انہیں ’ویری ٹیلنٹڈ‘ کا خطاب دینے والے بھی ٹرمپ ہی تھے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ کے مسلسل بدلتے ہوئے مزاج کی ایک لمبی تاریخ ہے، جو بتاتی ہے کہ ٹرمپ کسی کو عظیم رہنما یا گریٹ مین کہہ دیں تو اسے زیادہ سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔ ٹرمپ کا یہ رویہ بتاتا ہے کہ ان کے دوستوں اور دشمنوں دونوں کو ایک درجے میں پریشان ہونا چاہیے۔ ٹرمپ کے ساتھ معاملہ کرتے وقت دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کیا ٹرمپ اور ان کی اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں؟ یعنی جو معاملات ٹرمپ کے ساتھ طے کیے جا رہے ہیں وہ واقعی امریکہ کے ساتھ کیے جا رہے ہیں یا ایک فرد واحد کے ساتھ؟ یعنی یہ معاملات دیرپا ہوں گے یا صاحب کے اقتدار کے ساتھ ہی ان کی مدت بھی تمام ہو جائے گی۔ وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ کے اپنی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کا تناؤ ایک تلخ حقیقت ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق امریکی اسٹیبلشمنٹ پالیسیوں میں تسلسل کی قائل رہی ہے جب کہ ٹرمپ کسی بھی وقت، اپنے مفاد میں کوئی پالیسی اختیار کر سکتے ہیں۔ عمران خان کی طرح ان میں بھی یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف ہائی وے پر یوٹرن لے سکتے ہیں بلکہ ایسا کرتے وقت وہ انڈی کیٹر دینے کا تکلف کرنے کے بھی قائل نہیں۔ ٹرمپ کا اپنی اعلیٰ فوجی قیادت سے حالیہ خطاب ہی سن لیجیے۔ موصوف آغاز میں فرماتے ہیں: ’جسے میری باتیں پسند نہیں وہ اٹھ کر جا سکتا ہے البتہ جو بھی جائے گا اس کا رینک بھی اس کے ساتھ ہی چلا جائے گا۔‘
اس کے بعد صاحب فرمانے لگے کہ جو فوجی افسر صاحب کو پسند نہیں ہو گا اسے گھر بھیج دیا جائے گا۔ چنانچہ اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ: جاگتے رہنا، ٹرمپ تے نہ رہنا۔
