روشنیوں سے ویرانی تک، لاہور میں عمران خان کا گھر اجڑ گیا

زمان پارک لاہور کے علاقے میں واقع عمران خان کا آبائی گھر دو برس پہلے تک پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا تھا جسے وقت گزرنے کے ساتھ بانی تحریک انصاف نے ایک محفوظ قلعے میں تبدیل کر دیا تھا۔ یہاں رات میں جلسوں کی گہماگہمی ہوتی تھی اور دن کی روشنی میں سیاست دانوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ لیکن آج عمران خان کی یہ رہائش گاہ ایک ویران قلعہ بن چکی ہے، جہاں اب پرندوں کے چہچہاہٹ اور ہوا کی سرسراہٹ کے سوا کوئی آواز سنائی نہیں دیتی، عمران خان کی گرفتاری نے نہ صرف اس گھر کو ویران کر دیا ہے بلکہ اس کی روح کو بھی سلب کر لیا ہے۔
عمران خان کی گرفتاری سے قبل لاہور کی نہر کے کنارے واقع زمان پارک تیز روشنیوں اور سیاسی گہما گہمی کا مرکز تھا۔ ہر کونے میں خیمے، ٹھیلے، نعرے اور ملکی و غیر ملکی میڈیا کی براہ راست کوریج دکھائی دیتی تھی۔ ملک میں ہنگامہ برپا کرنے والے سیاسی فیصلے یہیں پر ہوتے تھے اور قیادت کے خلاف کارروائیوں پر مزاحمت کی جاتی تھی۔ لیکن آج، اسی مقام پر صرف اندھیرا، خاموشی اور غیر یقینی کا راج ہے۔
اگست 2023 میں توشہ خانہ کرپشن کیس میں سزا کے بعد عمران خان کی گرفتاری نے ان کی رہائش گاہ کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے، عمران کی گرفتاری کے بعد کچھ عرصہ تک یہ گھر ان کی تیسری اہلیہ بشریٰ بی بی عرف پنکی پیرنی کا مسکن تھا، لیکن انکی گرفتاری کے بعد سے اس گھر کی رونقیں ماند پڑ چکی ہیں۔ اس ویران قلعے کی دیکھ بھال کے لیے گھر کے باہر صرف دو گارڈز تعینات ہیں، جبکہ گھر کے اندر ایک ملازم روزمرہ کی صفائی کا کام سنبھالتا ہے، جس کی تنخواہ تحریک انصاف کے پارٹی کھاتے سے ادا ہوتی ہے۔ عمران خان کی بہنوں کو زمان پارک والے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں چونکہ بشری بی بی اپنی گرفتاری سے پہلے اس کی نگرانی کی ذمہ داری اپنے خاندان کو سونپ گئی تھیں۔ یاد رہے کہ بشری بی بی سے نکاح کے وقت عمران خان نے زمان پاک والا گھر بشری بی بی کے نام پر ٹرانسفر کر دیا تھا لہذا قانونی طور پر اب وہی اس جائیداد کی بلا شرکت غیرے مالکن ہیں۔
خیال رہے کہ مئی 2023 کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد زمان پارک بدترین ہنگامہ آرائی اور مسلح مزاحمت کا مرکز بن گیا تھا۔ کارکنوں نے یہاں سے جناح ہاؤس اور دیگر حساس عسکری مقامات تک پیش قدمی کی اور پرتشدد حملے کیے۔ اس کے بعد ملک گیر ہنگامے ہوئے اور فوجی تنصیبات پر حملے کیے گئے جن کے الزام میں کئی پارٹی رہنما اور کارکنان آج مختلف جیلوں میں قیدیں کاٹ رہے ہیں۔ عمران خان کی وزارت عظمی سے بے دخلی کے بعد ایک "مزاحمتی قلعے” کا درجہ حاصل کر جانے والا یہ گھر اب ایک اجڑے مزار کا منظر پیش کرتا ہے۔ لیکن زمان پارک کے مقامی مکین جو ایک سال تک بند گلیوں، ناکوں، نعرے بازی اور رات بھر کے شور سے تنگ تھے، سکون کا سانس لیتے نظر آتے ہیں۔ اب نہ کوئی نعرہ سنائی دیتا ہے، نہ کوئی پرچم دکھائی دیتا ہے، حتیٰ کہ کارکن تو ایک طرف پارٹی رہنما بھی اس گھر کے راستے بھول چکے ہیں۔ سیاسی طور پر بھی زمان پارک اب غیر فعال ہو چکا ہے۔
مبصرین کے مطابق کبھی سیاسی تحریک کا مرکز، میڈیا کی توجہ کا محور اور کارکنوں کا روحانی مسکن کہلانے والا زمان پارک آج خاموشی کی چادر اوڑھے ایک اجڑی ہوئی درگاہ کا منظر پیش کرتا ہے۔ جہاں کبھی ہر گلی تحریک انصاف کے نعروں سے گونجتی تھی، آج وہاں صرف سیکورٹی اہلکاروں اور چند ملازمین کی موجودگی باقی رہ گئی ہے۔ خان کے گھر کے باہر کی گرین بیلٹ ایک زمانے میں پارٹی کارکنان کی خیمہ بستی میں تبدیل ہو گئی تھی اور وہاں سبزہ ختم ہو گیا تھا، تاہم عمران کی گرفتاری کے بعد سے صورتحال بہتر ہو چکی ہے اور گرین بیلٹ دوبارہ سے ہرا بھرا ہو گیا ہے۔ جہاں مرجھائے ہوئے پودے ہوتے تھے، اب وہاں نئے پودے تناور ہو رہے ہیں۔ خواتین اور بچے بے فکری سے زمان پارک میں واک کرتے ہیں اور کھیلوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، وہ گلیاں جو پہلے عام لوگوں کیلئے بند ہوچکی تھیں، اب مکمل طور پر کھل چکی ہیں اور محفوظ ہیں۔ اب نہ تو وہاں کے مکینوں کو آنسو گیس کہا دھواں برداشت کرنا پڑتا ہے اور نہ ہی انہیں ناکوں پر اپنی شناخت کروانی پڑتی ہے۔
زمان پارک کے منظرنامے میں یہ تبدیلی صرف سیکیورٹی یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اقدامات کا نتیجہ نہیں، بلکہ خود تحریک انصاف کے اندرونی انتشار اور کارکنوں کی مایوسی کی عکاس بھی ہے۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد سے نہ تو پارٹی کارکنان کبھی اس طرف آئے ہیں، اور نہ ہی کوئی دھرنا دینے یا سیاسی سرگرمی کرنے کی کوشش کی ہے۔ مختصر یہ کہ عمران کا گھر ماضی کی ایک یادگار بن چکا ہے جہاں صرف خاموشی ہے، جو ہر لمحے گہری ہوتی چلی جا رہی ہے۔
