حکومتی دعوے بے بنیاد نکلے، مہنگائی میں 100 فیصد اضافہ ہو گیا

ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کی بنیاد پر وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے ملک میں مہنگائی کی شرح میں کمی اور اس کے سنگل ڈیجٹ میں آ جانے کا دعوی تو کر دیا گیا ہے لیکن در حقیقت گزشتہ چار برس میں مہنگائی میں ایک سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق گذشتہ سال کے مقابلے میں اس سال مہنگائی میں کمی نہیں ہوئی بلکہ اس کے بڑھنے کی رفتار میں کمی ہوئی ہے اس لیے وزیراعظم کی جانب سے کیا جانے والا دعوی بے بنیاد ہے۔
یاد رہے کہ ادارہ شماریات کی جانب سے مہنگائی سے متعلق جاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی تقریباً تین سال بعد ’سنگل ڈیجٹ‘ پر آ گئی ہے اور رواں برس اگست میں مہنگائی کی شرح 9.64 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی مہنگائی کی شرح میں کمی اور دیگر معاشی اشاریوں میں بہتری پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ فچ کے بعد، عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے حال ہی میں پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو اپ گریڈ کیا، جو کہ ’بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی جانب سے ملک کے مثبت معاشی اشاریوں کا اعتراف ہے۔ لیکن معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اعدادو شمار کی بنیاد پر ملک میں مہنگائی کی شرح میں کمی کے دعوے کا مطلب یہ نہیں کہ مہنگائی واقعی کم ہو گئی ہے، ان کے مطابق پاکستان میں اب بھی کنزیومر پرائس انفیلیشن یعنی عام صارفین کی روز مرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں اب بھی بڑھ رہی ہیں۔
پاکستان میں مہنگائی کے اعداد و شمار ہمیشہ سالانہ تجزیہ پر بتائے جاتے ہیں، مجموعی طور پر گذشتہ چار برسوں کے دوران پاکستان میں مہنگائی میں سو فیصد اضافہ ہوا ہے جس کے باعث پاکستانی روپیہ کمزور ہوا یے اور عوام پِس چکے ہیں۔
کیا حکومت مینگل کے مطالبات مان کر ان کا استعفیٰ روک پائے گی ؟
معاشیات سے واقفیت رکھنے والے ماہرین کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے مہنگائی کی شرح کم ہونے کے دعوے جھوٹے ہیں۔یاد رہے کہ ادارہ شماریات نے دو ستمبر کو ملک میں مہنگائی سے متعلق رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگست 2023 مہنگائی کی جو شرح 27.84 فیصد تھی وہ رواں برس اگست میں کم ہو کر 9.6 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ اکتوبر 2021 کے بعد ملک میں مہنگائی کی سب سے کم شرح ہے۔ اکتوبر 2021 میں یہ شرح 9.2 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔ دوسری جانب پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی کا تقریباً 40 فیصد اضافہ اس وقت خط غربت سے نیچے ہے یعنی ایک تہائی آبادی غربت میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق مہنگائی کا جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ آپ سینسیٹو پرائس انڈیکیٹر کے ذریعے سودا سلف اور روزمرہ خریداری میں شامل اشیا کی قیمتوں کا جائزہ لیں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ مہنگائی نے آپ کی گروسری باسکٹ کو کس حد تک متاثر کیا ہے۔ اس اشاریے کے مطابق ’اس گروسری باسکٹ میں سب سے زیادہ حصہ یعنی تقریباً 35 فیصد خوراک کا ہے لہازا اگر کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں پر اثر پڑے گا تو یقیناً ایک عام صارف کی زندگی پر بھی اثر مرتب ہو گا۔ اس کے علاوہ مہنگائی کی شرح کا جائزہ لیتے وقت پیٹرولیم، ٹرانسپورٹ اور ہاؤسنگ انڈیکس کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔ اگر اگست 2024 میں مہنگائی کی شرح میں سنگل ڈیجٹ تک کمی آئی ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ پیٹرولیم مصنوعات، ٹرانسپورٹ اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کا ہونا ہے۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت اسے اپنی کامیابی نہیں کہہ سکتی کیونکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی بین الاقوامی منڈی میں کمی کے باعث ہے اور بجلی کی قیمت اور ٹرانسپورٹ کی قیمتوں میں بھی کمی کا تعلق تیل کی قیمت سے ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ایک عام آدمی کی جیب کو سب سے زیادہ روز مرہ کی کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں سے فرق پڑتا ہے جن میں سے زیادہ تر گذشتہ سال کے مقابلے میں بڑھی ہیں۔ حالیہ مون سون کے باعث کھانے کی قیمتوں میں آنے والے ماہ میں کوئی کمی متوقع نہیں ہے اور عام آدمی کے لیے رواں سال بجٹ اور عائد ٹیکسز کے باعث قوت خرید اتنی کم ہو گئی ہے کہ اس کے لیے قیمتوں میں معمولی فرق اس کی جیب پر ریلیف میں کوئی فرق نہیں ڈالتا۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ حکومت ٹیکس ہدف سے دو ماہ پیچھے ہیں ایسے میں یہ خدشہ بھی ہے کہ کہیں حکومت کوئی منی بجٹ نہ لے آئے ایسے میں ٹیکسوں کا نیا بوجھ عوام کی کمر مزید توڑ سکتا ہے۔ موجودہ اعداد و شمار کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ حکومت نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے وقت شرح سود میں بھی کمی لا سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو آہستہ آہستہ ملک میں معاشی تیزی آئے گی اور سرمایہ داروں کا مارکیٹ کے ماحول پر مثبت اثر پڑے گا جس سے نہ صرف کاروباری دنیا میں معمولی تیزی کے ساتھ ساتھ لوگوں کی قوت خرید بھی بہتر ہو سکتی ہے۔