برطانیہ نے PIA کی پروازوں سےپابندی ہٹا لی یا اب بھی برقرار ہے؟

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی پروازوں پر برطانوی حکام کی جانب سے عائد کردہ پابندی ہٹا لی گئی ہے یا اب بھی برقرار ہے؟ حکومت پاکستان اور پی آئی اے حکام اس سوال کا واضح جواب دینے سے کترا رہے ہیں جبکہ برطانوی حکام کی جانب سے بھی اس حوالے سے خاموشی ہے۔
اطلاعات کے مطابق 20 مارچ 2025 کو یوکے ایئر سیفٹی کمیٹی کے اجلاس میں 2020 میں جعلی پائلٹ لائسنس سکینڈل سامنے آنے کے بعد پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز سمیت پاکستانی ایئر لائنز پر لگائی گئی پابندی کا از سر نو جائزہ لیا گیا۔ اس حوالے سے 25 مارچ کو برطانوی حکام کی جانب سے یہ پابندی اٹھانے کا باضابطہ اعلان متوقع تھا، تاہم برطانوی حکام کی جانب سے پابندی کے خاتمے کے حوالے سے کوئی باضابطہ تصدیق ابھی تک نہیں ہو پائی۔ یاد رہے کہ یو کے سول ایوی ایشن اتھارٹی کی ایک آؤٹ سورسنگ ٹیم "یو کے سیفٹی کمیٹی” نے سیفٹی آڈٹ کرنے کے لیے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ کمیٹی نے اس بارے ایک مثبت رپورٹ مرتب کرکے برطانیہ کی ایوی ایشن میں جمع کروا دی تھی، تاہم ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا، چنانچہ یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ برطانیہ اب بھی پاکستانی ایئر لائنز کے حفاظتی معیارات کا جائزہ لے رہا ہے۔
یا د رہے کہ یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے نومبر 2024 میں پی آئی اے کی یورپ کے لیے پروازوں سے پابندی ہٹا دی تھی، جس کے بعد پاکستانی ایئر لائن کو جنوری 2025 میں پیرس کے لیے براہِ راست پروازیں دوبارہ شروع کرنے کی اجازت مل گئی تھی۔
تاہم برطانیہ کا پابندی ہٹانے کا فیصلہ ابھی تک غیر یقینی کا شکار ہے، جس کی وجہ سے ہوا بازی کی صنعت میں شدید الجھن پائی جا رہی ہے۔ آیا پابندی ہٹا دی گئی ہے یا نہیں، اس بارے صرف برطانوی حکام کا اعلان ہی الجھن کو رفع کر سکتا ہے، مگر ادھر صرف خاموشی ہے۔ پاکستانی ایئرلائنز پر برطانیہ جانے والی پابندی کے خاتمے کے حوالے سے میڈیا رپورٹس اور سرکاری بیانات میں تضاد نے ہوا بازی کی صنعت میں بھی الجھن پیدا کردی ہے۔ اس الجھن نے وزیر اعظم شہباز شریف کو بھی مجبور کردیا کہ وہ ڈی جی سول ایوی ایشن اتھارٹی سے براہِ راست بات کرکے اصل صورت حال سے آگاہی حاصل کریں اور مکمل رپورٹ مانگیں، شاید انہی کے حکم پر عملدرآمد کرتے ہوئے سول ایوی ایشن اتھارٹی اور پی آئی اے نے علیحدہ علیحدہ پریس ریلیز جاری کیں۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کے ترجمان کے مطابق برطانوی محکمہ ٹرانسپورٹ کی جانب سے نا کوئی اعلامیہ جاری ہوا ہے، نا ہی کوئی مراسلہ آیا یے۔ برطانوی محکمہ ٹرانسپورٹ کی جانب سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا، پاکستان کے ہوابازی سے منسلک تمام ادارے ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور اپنا کام یکسوئی سے سرانجام دے رہے ہیں اس سلسلے میں چہ مگوئیوں اور قیاس آرائی سے گریز کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح ڈی جی سول ایوی ایشن اتھارٹی نادر شفیع ڈار نے میڈیا کو بتایا کہ برطانیہ میں پی آئی اے سمیت تمام پاکستانی ایئرلائنز کے متعلق تاحال برطانوی حکام نے کچھ تحریری طور نہیں بتایا، لہذا سول ایوی ایشن حکام کو برطانوی حکام کے جواب کا انتظار ہے۔
یاد ریے کہ سال 2020 میں برطانیہ نے جعلی پائلٹ لائسنسوں کے خدشات کے باعث پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز سمیت دیگر پاکستانی ایئر لائنز پر پابندی عائد کردی تھی۔ یہ پابندی پی آئی اے کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا، جو اپنی بین الاقوامی ساکھ دوبارہ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کررہی تھی، جبکہ لاکھوں تارکین وطن کو بھی سخت پریشانی لاحق ہو گئی۔ اس سقت ایئرلائنز، ٹریول ایجنٹس اور مسافر سبھی یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا پاکستانی ایئر لائنز کو برطانیہ کے لیے پروازیں دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دی جائے گی یا نہیں۔ ایوی ایشن امور کے ماہر عباد الرحمان کہتے ہیں کہ میڈیا رپورٹس میں پابندی برقرار رہنے کا اشارہ دیا گیا ہے، مگر اس بارے برطانوی حکام کی ابھی تک خاموشی ہے۔ یہ غیر یقینی صورت حال پاکستانی ایئر لائنز کے لیے کافی پریشان کن یے کیونکہ پی آئی اے اپنی بین الاقوامی ساکھ دوبارہ بحال کرنے اور برطانیہ کے لیے پروازیں شروع کرنے کے لیے پچھلے دو سالوں سے محنت کر رہی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر یو کے سیفٹی کمیٹی پاکستانی ایئر لائنز پر سے پابندی نہیں ہٹاتی تو اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ذرائع کے مطابق یو کے سیفٹی کمیٹی کو اب بھی پاکستانی ایئر لائنز کے حفاظتی معیارات بارے خدشات ہوسکتے ہیں۔ سیفٹی کمیٹی کو شاید یقین نہ ہو کہ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے پاس پروازوں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے نگرانی کی مناسب صلاحیت موجود ہے۔ ایوی ایشن ماہرین کے مطابق اگر برطانیہ کے لیے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کی پروازوں پر پابندی برقرار رہتی ہے تو یہ پاکستان سول ایوی ایشن اور رجسٹرڈ ایئر لائنز کے لیے کئی پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس پابندی کے نتیجے میں پاکستانی ایئرلائنز کو بھاری معاشی نقصان ہوتا رہے گا، اس حوالے سے پی آئی اے کو سالانہ 40 ارب روپے کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔