کیا واقعی نئے عبوری سیٹ اپ کے لیے تیاریوں کا آغاز ہو گیا ہے؟
معروف لکھاری اور تجزیہ کار کنور محمد دلشاد نے کہا ہے کہ معیشت کو سنبھالنے اور ملکی کو صحیح ڈگر پر ڈالنے کے لیے فیصلہ ساز ایک عبوری انتظامی سیٹ اپ پر کام کر رہے ہیں جس کا سربراہ بنگلہ دیش ماڈل کی طرز پر ایک چیف ایڈوائزر ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگلے عبوری سیٹ اپ میں نگران وزیراعظم اور وزیراعلیٰ جیسے عہدوں کے نام تبدیل کر دے جائیں گے اور قابل اور دیانت دار افراد کو عوام کی خدمت کا موقع دیا جائے گا۔ انکا کہنا ہے کہ معاشی محاذ پر مکمل ناکامی کے بعد اب اقتدار کی راہداریوں میں یہ باتیں گردش کر رہی ہیں کہ فوج نے وزیراعظم شہباز شریف سے جو توقعات لگائی تھیں‘ وہ ان پر پورا اترنے میں ناکام رہے، لہازا اب ایک نئے عبوری سیٹ اپ کے قیام کی تجویز زیر غور ہے۔
کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ ملک کا آئین ریاست کے تابع ہوتا ہے، اگر ریاست کی بقا خطرے سے دوچار ہو تو ہمیشہ پہلی ترجیح ریاست کو ہی دی جاتی ہے جسے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے بنگلہ دیش میں حالیہ بحران کے دوران وہاں کے آرمی چیف کی مثال دیتے یوئے کہا کہ حسینہ واجد کے رشتہ دار ہونے کے باوجود انہوں نے ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دی اور ریاست کو بچانے کی خاطر وزیراعظم سے استعفی مانگ لیا۔ تاہم سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن اف پاکستان نے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عبوری سیٹ اپ کے حوالے سے دعوی کرتے ہوئے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ انہوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ آیا ائین میں ایسے کسی سیٹ اپ کی گنجائش موجود ہے اور کیا واقعی حکومت اور فوج کے مابین معاملات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ ایک نئے عبوری سیٹ اپ کے قیام پر غور کیا جا رہا ہے۔
کنور محمد دلشاد کا کہنا ہے کہ اگر سیاسی منظر نامے پر نظر دوڑائیں تو اس وقت صدر آصف زرداری ہی ایسے سیاستدان ہیں جو صوبوں کو ازسر نو اختیارات تقویض کرکے فیڈریشن کو مضبوط بنانے کے خواہش مند ہیں۔ صدر زرداری سیاست کے رموز شناس ہیں‘ ان کے برعکس نواز شریف محض کاروباری معاملات سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ آصف زرداری کی کامیاب سیاسی چالیں بھی سب کے سامنے ہیں۔ گزشتہ دنوں تحریک انصاف کی قیادت کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کربعد صدر زرداری متحرک ہو گئے اور انہوں نے مولانا سے ملاقات کرکے مستقبل کا ایک نقشہ تیار کیا ہے۔ شنید ہے کہ صدر زرداری سے ملاقات کے بعد مولانا فضل الرحمن نے تحریک انصاف کو پیغام بھیج دیا ہے کہ ان کی عوامی قوت دوسروں کے لیے استعمال نہیں ہو گی۔ ویسے بھی ماضی میں عمران خان نے سالہا سال تک جس انداز میں مولانا کی تضحیک کی اس کے زخم کافی گہرے اور ابھی تک تازہ ہیں۔ مولانا کی جماعت میں بھی تحریک انصاف کی لیڈرشپ سے تعلقات پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔
کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ اس وقت تحریک انصاف اندرونی طور پر تقسیم ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف اگر خبروں میں زندہ ہے تو اس کی بڑی وجہ حکومت کا غیر دانشمندانہ رویہ ہے۔ وہ آئے دن کوئی نیا بیان دے کر تحریک انصاف کو سیاسی بحث کا موضوع بنا دیتی ہے۔ بانی تحریک انصاف جیل سے جو بیانیہ جاری کرتے ہیں حکومتی ارکان اس پر تنقید کرکے بانی پی ٹی آئی کا قد بڑھانے میں لگ جاتے ہیں۔ اس وقت سیاسی حلقوں میں چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی یا مدتِ ملازمت کے دورانیے سے متعلق قانون سازی کا معاملہ بھی زیر بحث ہے۔ یہ واضح رہنا چاہیے کہ پارلیمنٹ کی سادہ اکثریت سے آئین میں ترمیم ناممکن ہے‘ البتہ حکومت ایک نیا ایکٹ پاس کر کے آئین کی شقوں کو بائی پاس کرنے کی کوشش کر سکتی ہے‘ ماضی میں بھی ایسی کوششیں ہوتی رہی ہیں اور ایسی قانون سازی سے معاملات مزید الجھ جاتے ہیں۔ شنید ہے کہ آئین میں ترمیم کرنے کی راہ نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی اور آزاد اراکین کو ساتھ ملانے کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ صدر زرداری کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات میں بھی یہ معاملہ زیر بحث آیا تھا۔ اگر مولانا فضل الرحمن اپوزیشن بینچوں کو چھوڑ کر حکومتی اتحاد کا حصہ بن جائیں تب بھی عددی طور پر آئین میں ترمیم ممکن نہیں ہے۔ البتہ صدر زرداری کا دائو چل گیا تو پانسہ پلٹ سکتا ہے۔ اس مفاہمتی پالیسی میں مولانا فضل الرحمن کو کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی آفر کی جا سکتی ہے‘ کے پی کی گورنرشپ اور وزارتوں کے حوالے سے بھی کچھ خبریں زیر گردش ہیں مگر یہ دیکھنا پڑے گا کہ ایسی قانون سازی کے اثرات کیا ہوں گے۔ سپریم کورٹ میں اس حوالے سے جوابی حکمت عملی بھی تیار کی جا رہی ہے اور ایسی کسی ترمیم کی صورت میں متاثرہ ججز اجتماعی طور پر مستعفی بھی ہو سکتے ہیں جس سے سپریم کورٹ تقسیم ہونے کا خدشہ ہے اور ملک کا بنیادی ڈھانچہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہے گا۔
کیا ججز کی تعداد بڑھانے کا مقصد عمرانڈومنصفوں کو قابوکرناہے؟
کنور محمد دلشاد کہتے ہیں کہ 2006ء میں اُس وقت کے چیف جسٹس ناظم صدیقی نے بھی ججز کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی کوشش کی تھی مگر ججز میں شدید اختلافات پیدا ہو گئے تھے اور سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج افتخار محمد چودھری نے شدید مزاحمت کی تھی۔ جسٹس ناظم صدیقی اور جسٹس افتخار چودھری کی اس معاملے کو لے کر تلخ کلامی بھی ہوتی تھی جس پر جسٹس تصدق جیلانی نے بینچ ہی توڑ دیا تھا۔ لہازا شہباز حکومت کو سپریم کورٹ میں یکجہتی برقرار رکھنے کے لیے ایسی کسی ترمیم سے گریز کرنا چاہیئے۔