پاک سعودی دفاعی معاہدہ انڈیا کے لیے کتنا بڑا دھچکا ہے؟

 

 

 

پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دفاعی معاہدے کو انڈیا کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ اس معاہدے کے بعد انڈیا میں پوچھا جانے والا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر مودی مستقبل میں پاکستان کے خلاف ’آپریشن سندور‘ جیسا مزید کوئی آپریشن کرتا ہے تو کیا سعودی عرب پاکستان کا ساتھ دے گا کیونکہ اس کے انڈیا سے بھی اچھے سفارتی تعلقات ہیں؟

 

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان نے آپریشن سندور کو جس طرح ناکام بناتے ہوئے انڈیا کے چھ لڑاکا جہاز گرائے اس کے نتیجے میں پاکستان مشرق وسطی میں ایک اہم مسلم دفاعی طاقت کے طور پر اُبھرا ہے جس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف انڈیا کا معاملہ الٹا نظر آتا ہے۔ مودی نے جس غلط فہمی میں پاکستان پر حملہ کیا تھا وہ اب دور ہو چکی اور بھارت کو لینے کے دینے پڑ گئے۔

 

تجزیہ کاروں کے مطابق مئی میں ہونے والی پاک بھارت جنگ میں انڈیا کی شکست کے بعد سے پاکستان مغربی ایشیا میں بہت زیادہ اہمیت حاصل کرتا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب انڈیا سفارتی تنہائی کا شکار ہوتا نظر آتا ہے۔ اب خلیجی ممالک اپنی سلامتی کے لیے پاکستان، ترکی اور چین کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ آپریشن سندور کے دوران بھی یہ تینوں ممالک انڈیا کے خلاف صف آرا نظر آئے، اس لیے اگر مستقبل کی بات کی جائے تو پاکستان اور سعودی عرب کے مابین ہونے والا دفاعی معاہدہ یقینی طور پر انڈیا کے لیے ایک بڑا سفارتی دھچکا ہے۔

 

جنوبی ایشیائی سیاست کے ماہر مائیکل کوگل مین نے کہا ہے کہ ’پاکستان نے ایک ایسے ملک کے ساتھ دفاعی معاہدہ کیا ہے جو انڈیا کا بڑا شراکت دار بھی ہے۔ اس دفاعی معاہدے نے پاکستان کو جنوبی ایشیا میں ایک تگڑی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ نے اس معاہدے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ’ہم انڈیا کی قومی سلامتی کے ساتھ علاقائی اور عالمی امن کے لیے اس معاہدے کے مضمرات کا مطالعہ کریں گے۔ لیکن ہم اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں۔

پاکستان کا بھارت کےلیے فضائی حدود مزید ایک ماہ بند رکھنے کا فیصلہ

تجزیہ کاروں کے مطابق اس رد عمل کا واضح مطلب یہ ہے کہ انڈیا بھی اس معاہدے کے اپنے ملک کی قومی سلامتی پر پڑنے والے ممکنہ اثرات کی بات کر رہا ہے۔ سابق انڈین سیکریٹری خارجہ کنول سبل اس صورت حال کو بہت سنگین سمجھتے ہیں۔ انکے مطابق پاک سعودی معاہدے کا مطلب یہ ہے کہ اب سعودی عرب کے فنڈز پاکستان کی فوج کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔ بظاہر پاکستان کُھلے عام عرب ممالک کو اسرائیل کے خلاف جوہری سکیورٹی فراہم کرنے کی بات کر رہا ہے۔ الجزیرہ ٹی وی کو ایک حالیہ انٹرویو میں وزیر دفاع خواجہ آصف سے پوچھا گیا کہ کیا اس معاہدے کے تحت سعودی عرب کو پاکستان کے جوہری ہتھیاروں تک رسائی ہو گی؟ اس پر خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’یہ معاہدہ دفاع کے لیے ہے جس کا مقصد ہرگز جارحانہ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کے تحت پاکستان کی دفاعی صلاحیت سعودی عرب کے لیے کسی بھی جنگی صورتحال میں دستیاب ہو گی، لیکن میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں آخری بار جوہری ہتھیاروں کا استعمال ہیروشیما پر ہوا تھا اور خوش قسمتی سے اب دنیا نیوکلئیر جنگوں سے محفوظ ہے اور اُمید ہے کہ آئندہ بھی ایسا کچھ نہیں ہو گا۔‘

 

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان شراکت داری کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن کہا جا رہا ہے کہ اس شراکت داری میں اس معاہدے کے تحت ہونے والا ممکنہ اضافہ انڈیا کے لیے مزید پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔

امریکہ کی ڈیلاویئر یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر مقتدر خان کا کہنا ہے کہ ’یہ واضح ہے کہ اگر انڈیا پاکستان پر حملہ کرتا ہے تو سعودی عرب اپنی فوج نہیں بھیج سکتا، لیکن اس کے پاس پیسہ ہے۔ سعودی عرب پاکستان کی فوج کو مضبوط کرنے کے لیے مالی مدد فراہم کر سکتا ہے۔ سعودی عرب کے پاس امریکی ٹیکنالوجی ہے اور وہ پاکستان کو بھی فراہم کر سکتا ہے۔ یقیناً یہ انڈیا کے لیے بہت بڑا نقصان ہو گا۔‘مقتدر خان کہتے ہیں کہ ’سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ سعودی عرب نے یہ معاہدہ کیوں کیا، لیکن اس کے قطعی جواب موجود ہیں۔ پہلا یہ کہ خلیجی ممالک اپنے دفاع کے لیے اب امریکہ پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔ دوسرا یہ کہ پاکستان نے آپریشن سندور کے دوران انڈیا کے حملے کا پوری عزم کے ساتھ مقابلہ کیا، جس کے نتیجے میں پاکستان ایک اہم ملک کے طور پر اُبھرا جس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔

 

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم مودی گذشتہ کئی برسوں سے سعودی عرب کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل پا رہا۔ انکا کہنا ہے کہ مودی نے سعودی عرب کو خوش کرنے میں برسوں گزارے ہیں۔ انھوں نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو ایک سٹریٹجک پارٹنر شپ تک پہنچانے کی بھی کوشش کی اور وہاں کے کئی دورے بھی کیے۔ لیکن نریندر مودی کی سالگرہ کے موقع پر، سعودی ولی عہد نے انھیں پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدے کا سرپرائز دیا ہے۔ اس معاہدے کی اہمیت یہ ہے کہ اب سعودی عرب اور پاکستان کسی بھی حملے کو دونوں پر حملے سے تعبیر کریں گے۔ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے ایک قدم آگے جاتے ہوئے ایکس پر لکھا کہ پاکستان اب سعودی رقم کو امریکی ہتھیار خریدنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے، جسکی ابھی اسے ضرورت بھی ہے۔

Back to top button