امریکی صدر ٹرمپ نے یوتھیوں کی امیدوں پر پانی کیسے پھیر دیا؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ عاشقان عمران خان کی توقعات کے برعکس نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں بانی پی ٹی آئی کے حوالے سے ایسی کوئی بات نہیں کی جس کی وہ امید لگائے بیٹھے تھے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ گزشتہ کئی مہینوں سے امریکہ میں پاکستان چھوڑ کر مقیم ہوئے ہم سے کہیں زیادہ ذہین وفطین افراد ہمیں بتائے چلے جارہے تھے کہ بالآخر اس ملک کے عوام مسلم اْمہ کے ایک خیر خواہ کو اپنا صدر منتخب کرنے جارہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے مسلمہ دوستی کی امید باندھتے ہوئے امریکہ میں مقیم عاشقان عمران خان اس امر پر بھی مصر رہے کہ اپنے عہدے کا حلف اٹھانے یا اس دن سے کئی ہفتے قبل ہی نو منتخب امریکی صدر کوئی ایسا ٹویٹ کر دیں گے جو حکومت پاکستان پر ’’مسلم اْمہ کے یک وتنہا لیڈر‘‘ کی جیل سے رہائی کے لئے دبائو بڑھائے گا۔ اس تناظر میں اس تاثر کو بھی فروغ دیا گیا کہ غالباََ ٹرمپ کی جانب سے متوقع دبائو سے گھبرا کر ریاستِ پاکستان کے دائمی اداروں نے شہباز حکومت کو تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھا دیا ہے، حالانکہ بانی تحریک انصاف بقول ان کے ’’اردلی‘‘ ٹائپ وزیراعظم شہباز شریف سے نہیں بلکہ طاقت کا اصل سرچشمہ سمجھے جانے والے ادارے سے براہ راست گفتگو کے خواہاں تھے۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ان کی یہ خواہش بھی تب پوری کر دی گئی جب بیرسٹر گوہر علی خان کی خیبر پختونخواہ میں دہشت گردی کی لہر میں اضافے پر غور کے لئے ہوئی ایک کانفرنس کے بعد آرمی چیف سے ہیلو ہائے کروا دی گئی۔ اس ملاقات سے یوتھیوں کی امیدیں ساتویں اسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ لیکن نصرت کہتے ہیں کہ اس سب کا اینٹی کلائمکس تب ہوا جب عمران خان اور ان کی اہلیہ کو مشہور زمانہ القادر ٹرسٹ کیس میں لمبی قید کی سزائیں سنادی گئیں۔ ان سزائوں کا اعلان ہونے کے بعد اب سوال یہ یے کہ خیا تحریک انصاف حکومت سے مذاکرات جاری رکھے گی یا نہیں۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ مجھے امید تھی کہ اب کی بار ’’مسلمانوں کے خیرخواہ‘‘ اور عمران خان کے دوست قرار دیے جانے والے ٹرمپ کی تقریب حلف برداری میں کسی مسلمان عالم کو بھی شرکت کی دعوت دی جائے گی۔ جب تقریب حلف برداری کا دعو ت نامہ چھپ کر برسر عام آیا تو اس میں دعائیہ کلمات ادا کرنے والوں میں ایک مسلم عالم کا نام بھی شامل تھا۔ لیکن تقریب حلف برداری کے دوران مختلف مسیحی عقائد کے نمائندوں کے بعد فقط ایک یہودی عالم کو دعائیہ کلمات ادا کرنے کے لئے ڈائس پر بلایا گیا۔ گویا مسلمانوں کو ٹرمپ کے لئے دعائیہ کلمات ادا کرنے کی سہولت بھی فرا ہم نہ کی گئی۔
یہودی عالم نے ’’دعائیہ کلمات‘‘ ادا کرتے ہوئے ٹرمپ کی تقریب حلف برداری کے دن کو اپنے ہم مذہبوں کے لئے ’’سعد‘‘ دن قرار دیا کیونکہ اسی روز حماس نے اسرائیل کے مغوی رہا کئے ہیں۔
نصرت جاوید کہتے ییں کہ قصہ مختصر یہ کہ امریکی اشرافیہ کے لئے ساری مسلم دنیا کے مقابلے میں اسرائیل اب بھی اہم ترین ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ امریکہ میں کئی برس گزارنے کے بعد خوش حال ہونے والے عاشقان عمران خان مجھ جیسے جاہلوں کو ٹرمپ کے حوالے سے یہ امید دلاتے رہے کہ وہ بائیڈن کے مقابلے میں اسرائیل کے تناظر میں ’’مسلمان دوست‘‘ شخص ہے۔ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ ٹرمپ اسرائیل کو غزہ میں وحشت ناک جارحیت سے روکے گا۔ تاہم امریکی صدر منتخب ہوتے ہی ٹرمپ نے حماس کو تڑی لگا دی کہ وہ اپنی قید میں موجود اسرائیلی شہریوں کو جلد از جلد رہا کرے۔ اس مطالبے کے بعد ٹرمپ نے ’’ورنہ‘‘ کا دہشت ڈالتا لفظ بھی استعمال کیا۔ حماس اس تڑی کے فوری بعد چند مغوی چھوڑنے کو آمادہ ہو گئی۔ اس کے بدلے حماس کے قیدی بہت بڑے تناسب کے ساتھ رہا ہوں گے۔ جنگ بندی بھی ہوجائے گی۔ لیکن اس کے بعد حماس کو غزہ کی پٹی میں بے اثر بنانے کے لئے اسرائیل جو بھی حکمت عملی اپنائے گا امریکی صدر ٹرمپ اس کی بھرپور حمایت کریں گے۔ جان کی امان پاتے ہوئے مجھے یہ کہنے کی اجازت بھی دیں کہ چند طاقت ور مسلم ممالک بھی اس ضمن میں امریکہ اور اسرائیل کا ساتھ دیں گے۔
نصرت جاوید کہتے ییں کہ میری جوانی میں یاسر عرفات اور ان کی پی ایل او فلسطینیوں کے واحد اور طاقت ور ترین رہ نما بن کر ابھری تھی۔ ابھی میں سکول کا طالب علم تھا تو 1967ء کی جنگ میں اردن کے زیر نگین فلسطینی علاقوں پر اسرائیل نے قبضہ کرلیا۔ مسجد اقصیٰ بھی اس کے تسلط میں چلی گئی۔ فلسطینیوں کا ساتھ دینے کے بجائے اردن نے فلسطینیوں کو اپنے ہاں آباد فلسطینیوں کو یاسر عرفات سمیت لبنان دھکیل دیا۔ 1980ء کی دہائی میں پی ایل ا و کو لبنان سے نکل کر تیونس جانے کو مجبور کردیا گیا۔ اس کے بعد یاسر عرفات اسرائیل کے ساتھ امریکہ کے کیمپ ڈیوڈ جا کر سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ میرے منہ میں خاک۔ نجانے مجھے کیوں یہ خیال ستائے چلا جارہا ہے کہ ٹرمپ کے وائٹ ہائوس لوٹنے کے بعد حماس کو بھی اسی طرح بے دست وپا بنانے کی کوششیں شروع ہوجائیں گی جو یاسر عرفات کی بنائی پی ایل ا و کو مفلوج تر بنانے کے لئے استعمال ہوئی تھیں۔