پاکستان نئے امریکی صدر ٹرمپ کی ترجیحات میں شامل کیوں نہیں؟

دوسری بار بر سر اقتدار آنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایسے وقت میں امریکہ کی صدارت سنبھالیں ہے جب عالمی سیاست مشرق وسطیٰ کے بحران سے لے کر روس-یوکرین جنگ اور چین-امریکہ دشمنی کے گرد گھوم رہی ہے۔ تاہم مبصرین کے مطابق تمام تر عالمی مسائل کے باوجود لگتا یہی ہے کہ اس بار ٹرمپ کی زیادہ توجہ اپنے ’پہلے امریکہ‘ کے نعرے پر مرکوز رہے گی۔ غزہ فائر بندی معاہدے کے باوجود اسرائیل-ایران کشیدگی برقرار رہنے کا خدشہ ہے جو ٹرمپ کی توجہ کا مرکز رہے گی۔اسی طرح واشنگٹن- بیجنگ کی جیو سٹریٹیجک کشمکش میں ٹرمپ انتظامیہ نئی دہلی کے ساتھ اپنے اتحاد کو مزید مضبوط کرے گی۔اس تناظر میں پاکستان جنوبی ایشیا کا دوسرا بڑا ملک ہونے کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ کی ترجیحات کے حاشیے پر رہے گا

تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ اپنے دوسرے دور میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کو چین کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی چین کے ساتھ پاکستان کی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور سٹریٹجک قربت، خاص طور پر بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے تحت شروع کیے جانے والے منصوبوں پر زیادہ نظریں ہوں گی۔مبصرین کا مزید کہنا ہے کہ امریکہ، اسلام آباد کے حوالے سے میڈیا اور محکمہ خارجہ کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف کے ذریعے بلاواسطہ یا بالواسطہ دباؤ ڈالا سکتا ہے، تاکہ پاکستان کچھ منصوبوں پر نظرثانی اور دیگر کو رول بیک کرے۔

مبصرین کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں کیونکہ اس کے بعد وہ امریکا میں دوبارہ صدر نہیں بن سکیں گے کیونکہ امریکا میں کوئی شخص صرف دو بار ہی صدر بن سکتا ہے اور اس بنا پر ہی یہ کہا جا رہا ہے کہ ٹرمپ اس بار کچھ بڑا کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ انہیں ان اقدامات کی بنا پر امریکی سیاسی تاریخ میں یاد رکھا جائے ۔ سینئر صحافی اوف تجزیہ۔کار سلمان غنی کے مطابق عالمی سیاست کے حوالے سے ٹرمپ کے دور اقتدار کے پہلے سو دن بہت اہم ہوں گے، سینئر صحافی کے مطابق ٹرمپ کے حالیہ اعلانات میں سب سے بڑا اعلان غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی ہے جس میں پہلے مرحلہ پر جرائم پیشہ افراد کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے ،ماہرین یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ امیگریشن سے نمٹنے کیلئے صدر کے پاس وسیع  اختیارات موجود ہیں اور اس حوالہ سے وہ سینیٹ اور ہاؤس میں اپنی اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قانون سازی بھی کر سکتے ہیں لہٰذا آنے والے چند ہفتے امریکا میں غیر قانونی تارکین وطن کیلئے بہت مشکل ہوں گے ۔

سلمان غنی کے مطابق صدر ٹرمپ کے حالیہ اہم اعلانات میں یوکرین جنگ کا خاتمہ اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال کا سدباب بھی شامل ہے یوکرین جنگ کا فوری خاتمہ اس لئے ممکن ہے کہ صدر ٹرمپ کے روسی صدر پوٹن کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور وہ۔ان تعلقات کو بروئے کار لاکر جنگ بندی کروا سکتے ہیں۔ یوکرین جنگ کے خاتمہ کو امریکی معاشی صورتحال کے حوالہ سے اہم قرار دیا جا رہا ہے ۔

سلمان غنی کے بقول افغانستان بارے ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ اعلان کہ افغان طالبان کو ڈالر کی فراہمی کا عمل امریکی اسلحہ کی واپسی سے مشروط ہوگا یہ اعلان اور فیصلہ کم از کم ہمارے خطے میں امن و امان کے حوالہ سے اہم ہو سکتا ہے گو کہ انہوں نے پاکستان کا کسی بھی طرح ذکر نہیں کیا لیکن افغانستان کی صورتحال پر بات ہوگی تو پاکستان پر اس کے اثرات ضرور ہوں گے ۔ سلمان غنی کا مزید کہنا ہے کہ اب تک کی صورتحال بارے تو کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان نئی امریکی انتظامیہ کی ترجیح میں نہیں ہوگا اور اس کی بڑی وجہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد امریکی انتظامیہ کی نہ صرف پاکستان بلکہ خطے میں دلچسپی کم ہوئی ہے جس کا بڑا ثبوت گزشتہ چار سال میں دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح کا کوئی رابطہ نہ ہونا ہے لہٰذا امریکا میں ہونے والی سیاسی تبدیلی کے اثرات پاکستان پر نہ ہونے کے برابر ہوں گے جہاں تک براہ راست پاکستان کے حوالہ سے امریکی تعلقات اور اس کے اثرات کا تعلق ہے تو سردست تو کسی امریکی انتظامیہ کی جانب سے اس حوالہ سے کوئی اشارہ نہیں لیکن پاکستان میں پی ٹی آئی کے حلقوں کی نئی امریکی انتظامیہ کے حوالے سے بہت سی توقعات ہیں اور اس حوالہ سے وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں بعض اہم پاکستانیوں کے اس میں مثبت کردار کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال، میڈیا کے حالات ،شہری آزادیوں سمیت مختلف سیاسی ایشوز پر کوئی کردار ادا کر سکتی ہے ۔ سلمان غنی کے مطابق ماضی کی امریکی تاریخ میں براہ راست تو پاکستان کو ایسی کسی صورتحال میں دباؤ میں لانے کی کوئی روایت موجود نہیں لیکن پاکستان کی اندرونی سیاسی صورتحال میں حکومت مخالف پی ٹی آئی صدر ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ سے بہت سے توقعات قائم کرتی نظر آ رہی ہے لیکن فی الحال تو ایسا ممکن نظر نہیں آتا اور نہ ہی اس حوالہ سے امریکی روایات موجود ہیں لیکن خارجہ امور کے ماہرین یہ ضرور کہتے نظر آ رہے ہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی علاقائی ترجیح تو بھارت ہی ہوگا لیکن پاکستان کے سیاسی حالات یا انسانی حقوق بارے کسی صورتحال کے ضمن میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر گزرنے کی حامل شخصیت ہیں اس لئے کسی بھی حوالے سے کوئی بھی توقع کی جا سکتی ہے۔

Back to top button