پاکستان نے امریکیوں کو لوٹنے والا ہیکنگ نیٹ ورک کیسے گرفتار کیا؟

نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی نے ملتان میں ایک بڑی کارروائی کرتے ہوئے امریکہ اور یورپی ممالک کے شہریوں اور مالیاتی اداروں کو ہیکنگ کے ذریعے لوٹنے والا بینکنگ نیٹ ورک گرفتار کر لیا ہے جو پچھلے کچھ برسوں میں 30 لاکھ ڈالرز سے زائد کا فراڈ کر چکا تھا۔ تاہم ‘ہارٹ سینڈر’ نامی گرو کا سرغنہ چھاپہ مار ٹیم کو چکمہ دے کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ نیشنل سائبر کرائم ایجنسی نے ہیکنگ میں استعمال ہونے والی تمام فشنگ ویب سائٹس کو ٹریک کر کے اس گروہ سے منسلک 21 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ ’ہارٹ سینڈر‘ نامی گروہ نے ڈریم کلراور پاک ہیک ڈاٹ کام کے نام سے ایک ویب سائٹ بنائی ہوئی تھی جس کے ذریعے 780 ویب سائٹس ہیک کی گئیں۔ یہ گروہ ’شفا گارڈن‘ نامی ایک کمپنی چلا رہا تھا جسکی آڑ میں اصل کام یعنی مالیاتی فراڈ اور سائبر کرائم کیے جاتے تھے۔
نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی کے تفتیشی حکام نے بتایا ہے کہ اس ہائی پروفائل کیس کی تحقیقات کے لیے آٹھ رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو ملزمان سے پوچھ گچھ کر رہی ہے۔ ملزمان کے زیراستعمال متعدد کمپیوٹرز، لیپ ٹاپ، موبائل فون، الیکٹرانک آلات اور مشینیں قبضے میں لے لی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ گروہ سے چند لگژری گاڑیاں بھی قبضے میں لے لی گئی ہیں۔ حکام کے مطابق ملتان میں جو مکان اس گروہ کے زیراستعمال تھے انھیں سیل کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل جنوری 2025 میں امریکی تحقیقاتی ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن اور نیدرلینڈز کی پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے اس نیٹ ورک کی 39 ویب سائٹس اور ان سے منسلک ویب سرورز بند کر دیے تھے۔امریکی محکمہ انصاف اور ایف بی آئی نے نیشنل سائبر کرائم ایجنسی کو اگاہ کیا تھا کہ اس پاکستانی نیٹ ورک کو صائم رضا عرف ’ہارٹ سینڈر‘ نامی شخص چلا رہا ہے۔
نیشنل سائبر کرائم انوسٹیگیشن ایجنسی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس نیٹ ورک کے اراکین کو گرفتار کرنے کی غرض سے ملتان کی ہاوسنگ سوسائٹی میں چھاپہ مارا۔ حکام کو اطلاع ملی تھی کہ اس گروہ کے اراکین دو مکانوں میں موجود ہیں، جو ساتھ ساتھ واقع ہیں۔ یہ خصوصی طور پر تشکیل کی گئی ٹیم لوکیٹر کے ساتھ ساتھ ایسے ڈیجیٹل آلات بھی لائی تھی جنکی مدد سے ملزمان کی گرفتاری کو ممکن بنایا جا سکتا تھا۔ اس ٹیم کا بنیادی ہدف اس نیٹ ورک کے مقامی سرغنہ کو گرفتار کرنا تھا۔
اس ٹیم میں شامل ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مقامی سرغنہ کے زیراستعمال موبائل فون کا پتہ چلا کر اس نمبر کو لوکیٹر میں فیڈ کیا گیا جس کے بعد انھیں اس نمبر کے موجودہ مقام کا علم ہوا۔ کارروائی کا آغاز ہوا اور جلد ہی گروہ میں شامل تمام افراد پکڑے گئے۔ لیکن جس سرغنہ کے نمبر کی مدد سے وہ اس جگہ تک پہنچے تھے، وہ نہیں پکڑا گیا۔
ٹیم کے لیے حیرانی کی بات یہ تھی کہ لوکیشن کے مطابق وہ نمبر اب بھی اسی جگہ پر موجود تھا۔ ٹیم کے اراکین نے گرفتار افراد سے بارہا سختی سے پوچھا کہ ’ہارٹ سینڈر‘ کہاں چھپا ہوا ہے لیکن وہ لاعلمی کا اظہار کرتے رہے۔ چھاپہ مار ٹیم کو یقین تھا کہ انہی دونوں گھروں میں کوئی ایک ایسا خفیہ کمرہ یا تہہ خانہ موجود ہے جہاں گروہ کا سرغنہ چھپا ہوا ہے۔ لوکیٹر سرغنہ کے موبائل کی وجہ سے اس کی موجودگی ظاہر کرتا رہا لیکن پھر اچانک لوکیٹر سے اسکا نمبر غائب ہو گیا، یعنی سرغنہ نے اپنا موبائل فون بند کر دیا اور فرار ہو گیا۔
حکام کے مطابق بعد ازاں ملزمان سے تفتیش میں انکشاف ہوا کہ سرغنہ نے دونوں گھروں کے بالکل عقب میں بھی دو مکان کرائے پر لے رکھے تھے۔ نیشنل سائبر کرائم ایجنسی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر عبدالغفار نے بتایا کہ ان دو مکانات میں بھی اسی گروہ کے اراکین کام کرتے تھے۔ سرغنہ نے دونوں مکانوں کے درمیان ایک چھوٹا سا راستہ بنا رکھ تھا۔ لہذا جب چھاپہ مارا گیا تو سرغنہ اسی راستے سے فرار ہو گیا۔ سرغنہ کی گرفتاری کے لیے بھر پور کوششیں کی جا رہی ہیں اور ملک کے تمام ائیرپورٹس پر اس کا ڈیٹا پہنچا دیا گیا ہے تاکہ وہ ملک سے بھاگنے نہ پائے۔
کیا شمالی وزیرستان میں ڈرون حملہ واقعی دہشت گردوں نے کیا؟
ملتان کی ہاؤسنگ سوسائٹی میں موجود دونوں مکانوں سے گرفتار ہونے والے 14 ملزمان پر امریکی شہریوں اور مالیاتی اداروں کو لوٹنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ تمام ملزمان کو عدالت میں پیش کر کے اُن کا سات روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا گیا ہے۔ تفتیشی حکام نے عدالت کو بتایا کہ اس گروہ کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے جبکہ اینٹی منی لانڈرنگ سمیت دیگر الزامات کے تحت مزید مقدمات درج کیے جا سکتے ہیں۔ 15 ملزمان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں بھی شامل کر دیے گئے ہیں۔
اس حوالے سے جاری ہونے والی امریکی محکمہ انصاف کی پریس ریلیز کے مطابق ’تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ یہ نیٹ ورک 2020 سے سرگرم تھا اور امریکی شہریوں کو نشانہ بنا کر 30 لاکھ ڈالرز سے زائد کا نقصان پہنچا چکا تھا۔‘ ’یہ ویب سائٹس فشنگ کٹس fishing kits، اور سکیمنگ پیجز scamming pages جیسے ہیکنگ ٹولز hacking tools فروخت کر رہی تھیں جو کاروباری ای میل فراڈ میں استعمال کیے جاتے تھے، ان ٹولز کے ذریعے کمپنیوں کو جعلی ادائیگیوں کے لیے دھوکا دیا جاتا تھا اور پیسے ہیکرز کے کنٹرول میں چلنے والے اکاؤنٹس میں منتقل ہو جاتے تھے۔
امریکی محکمہ انصاف کے مطابق ’اس گروہ پر دنیا بھر میں جرائم پیشہ افراد کو ہیکنگ ٹولز اور فراڈ کو ممکن بنانے والی خدمات فروخت کرنے کا الزام ہے۔ اس نیٹ ورک نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک آن لائن بازار چلائے، جس میں جعل سازی، میلویئر کی تقسیم اور بڑے پیمانے پر مالی فراڈ کو سہولت فراہم کی گئی۔‘ امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ’اس گروہ نے نا صرف ہیکنگ ٹولز فروخت کیے بلکہ ان کے استعمال کے لیے جرائم پیشہ افراد کو تربیت بھی دی۔