ٹرمپ اور مودی کی رفاقت اب رقابت میں کیوں تبدیل ہونے لگی؟

پاکستان اور بھارت میں سیز فائر کروانے اور مسئلہ کشمیر کے حل کی پیشکش کرنے کے بعد بھارت اور امریکہ میں جہاں ہر گزرتےدن کےساتھ دوریاں بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں وہیں دوسری جانب پاکستان کی اپنے ماضی کے حلیف امریکہ کے ساتھ قربتوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اسی دوران جہاں پاکستان نے امریکہ سے اپنے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے اور باہمی تجارت کوفروغ دینے کیلئےزیروٹیرف دوطرفہ تجارتی معاہدے کی پیشکش کر دی ہے وہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معروف فون سازکمپنی ایپ کوبھارت میں مزید پروڈکشن یونٹ لگانے سے منع کرتے ہوئے باز نہ آنے پر انڈیا پر مزید ٹیرف عائد کرنےکا اعلان کر دیا ہے۔جس کےبعد انڈین سوشل میڈیا پر نریندر مودی کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
خیال رہےکہ پاک بھارت کشیدگی کو دونوں ممالک کا آپسی معاملہ قرار دینے کے بعد 10 مئی کونہ صرف امریکی صدر نے ذاتی دلچسپی لےکر پاکستان اور بھارت میں جنگ بندی کروائی تھی بلکہ دونوں ممالک کے ساتھ مل کر مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی بھی پیشکش کی تھی۔امریکی صدر کی اس پیشکش کو جہاں پاکستانی حکام نے کھلے دل سے خوش آئند قرار دیا تھا وہیں دوسری جانب بھارت نےامریکی صدر کی اس پیشکش کو مسترد کر دیا تھا جس کے بعد بھارت اور امریکہ کے مابین سرد مہری دیکھی جا رہی تھی۔ جس کے بعد بھارت کی جانب سے امریکہ کو زیروٹیرف تجارتی معاہدے کی پیشکش کی خبریں بھی سامنے آ رہی تھیں تاہم اب جہاں بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے انڈیا کی جانب سے امریکہ کے ساتھ زیروٹیرف معاہدے کے دعوؤں کو بے بنیاد قرار دے دیا ہے وہیں مسئلہ کشمیر بارے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پیشکش کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ جے شنکر کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات اور معاملات دو طرفہ ہوں گے۔ اس میں کسی ثالث کی کوئی گنجائش نہیں۔ دوسری جانب امریکی صدر نے بھی بھارت پر کاری وار کرتے ہوئے ایپ کمپنی کو بھارت میں آئی فون کے مزید پیدواری یونٹ لگانے سے روک دیا ہے۔ امریکی صدر کا ایپ کے سی ای اوٹِم کُک کو کہنا تھا کہ امریکہ برداشت نہیں کرے گا کہ ایپل اپنے مزید پروڈکشن یونٹ انڈیا میں لگائے۔ اگر ایسا کیا گیا تو بھارتی درآمدات پر مزید ٹیرف لگا کر یہ سلسلہ محدود کر دیں گے۔
امریکی صدر کی جانب سے مسلسل مودی سرکار کی پالیسیز کیخلاف سامنے آنے والے اقدمات کی وجہ سے مودی سرکار کو اندرونی و بیرونی محاذوں پر سخت تنقید کا سامنا ہے کیونکہ ماضی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی امریکی صدر کو اپنا قریبی دوست قرار دیتے رہے ہیں۔
امریکی صدر کے بھارت میں ایپل کو اپنے پروڈکشن یونٹ بند کرنے کی ہدایات کے بعد سوشل میڈیا پر مودی کی دھلائی جاری ہے۔ اس حوالے سے ترن گوتم نامی ایکس صارف نے لکھا کہ مودی نے ٹرمپ کے لیے سیاسی ریلی نکالی۔ ٹرمپ کے بھارت آنے پر کروڑوں روپے خرچ کیے۔ ان کے لیے ٹیرف کم کیے۔ ان کے لیے جنگ روک دی اوربھگتوں نے ٹرمپ کا مندر تک بنا دیا۔ لیکن ٹرمپ نے ایپل کے سی ای او سے کہا کہ بھارت میں سرمایہ کاری نہ کریں۔ یہ ہے مودی کی خارجہ پالیسی کی حالت۔
انڈیا کو ترقی کی راہ پر چلانے والے مودی نے تباہی کا راستہ کیسے چنا؟
رادھیکا کمار نے لکھا کہ یہ ٹرمپ کی طرف سے مودی کے منہ پر ایک اور طمانچہ ہے۔ ان کی دوستی کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے کیونکہ اب ایپل بھارت میں پیداوار نہیں بڑھائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ مودی کی کھوکھلی سفارت کاری کا براہِ راست نتیجہ ہے اور ان کی خارجہ پالیسی اب ایک عالمی مذاق بن چکی ہے۔
ایک بھارتی ایکس صارف نے لکھا کہ مودی نے ٹرمپ کو خوش کرنے کے لیے ہر مطالبہ مان لیا۔ صرف ایک تصویر میں ٹرمپ کو گلے لگانے اور خود کو بین الاقوامی رہنما دکھانے کے چکر میں مودی نے ہماری دیرینہ خارجہ پالیسی سے سمجھوتہ کر لیا۔
خوشبو نامی صارف نے لکھا کہ مودی جی کے عزیز دوست ٹرمپ چاہتے ہیں کہ ایپل آئی فون کی پیداوار بھارت منتقل کرنا بند کر دے۔ انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو نعرے لگاتے تھے ’اب کی بار، ٹرمپ سرکار‘؟ اب وہ اس کا خمیازہ بھگتیں۔
ایک صارف نے تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ٹرمپ نے کہا کہ میں نے جنگ روکی اس پر مودی خاموش رہا، ٹرمپ نے کہا کہ بھارت میں آئی فون نہ بناؤ مودی اس پر بھی خاموش رہا اور ادھر بھگت کہہ رہے ہیں کہ ترکی اور آذربائیجان کا بائیکاٹ کرو کیونکہ ٹرمپ اور چین تو بڑے پاپا اور چھوٹے پاپا ہیں۔
واضح رہے کہ ٹرمپ کا بیان ایپل کی اس حکمت عملی کے لیے ایک ممکنہ رکاوٹ بن سکتا ہے جس کے تحت کمپنی نے 2025 کے اختتام تک امریکا میں فروخت ہونے والے آئی فونز کی اکثریت بھارت سے درآمد کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔چین پر انحصار کم کرنے کے لیے ایپل کی جانب سے بھارت کا رخ کرنے کی کوششیں کووِڈ لاک ڈاؤنز اور امریکی چینی تجارتی کشیدگی کے تناظر میں شروع ہوئیں، جنہیں اب مزید تقویت مل رہی تھی۔فی الحال، ایپل کے بیشتر آئی فونز چین میں تیار ہوتے ہیں جبکہ امریکا میں کمپنی کی کوئی اسمارٹ فون مینوفیکچرنگ سہولت موجود نہیں ہے تاہم امریکی صدر دونلڈ ٹرمپ کے حالیہ احکامات کے تناظر میں لگتا یہی ہے کہ ایپل جلد بھارت سے اپنا بوریا بستر سمیت کر امریکہ شفٹ ہو جائے گا کیونکہ ایپل کیلئے ٹرمپ کی مخالفت مول لے کر امریکہ میں بزنس کرنا ممکن نہیں ہو گا۔