انڈیا کو ترقی کی راہ پر چلانے والے مودی نے تباہی کا راستہ کیسے چنا؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار رؤف کلاسرا نے کہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ان عالمی رہنماؤں میں شامل ہو چکے ہیں جنہوں نے پہلے اپنے ملک کو ترقی کے سفر پر گامزن کرتے ہوئے عوامی مقبولیت حاصل کی اور پھر تباہی کے راستے پر چل کر رسوائی کا شکار ہو گے۔

 

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کلاسرہ کہتے ہیں کہ جو لیڈرز اپنے اپنے عوام میں بہت ذیادہ مقبول ہو جائیں وہ اپنے ملک کو ترقی کم اور تباہی کی طرف زیادہ لے جاتے ہیں۔ تازہ مثال بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے قائم کی ہے۔ انسانی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ جب لیڈروں کو جمہوریت کے نام پر دیوتا یا بھگوان مان کر ان کی پوجا شروع ہو جاتی ہے‘ اور ان کے پجاری انہیں مہاتما ثابت کرنے میں لگ جاتے ہیں‘ یہیں سے تباہی کا آغاز ہوتا ہے۔ آپ غور کریں کہ ایک سیاسی لیڈر جمہوری طریقے سے جب اوپر آتا ہے تو اپنے سے پہلے موجود حکمرانوں پر سخت تنقید کر کے آتا ہے۔

 

انکا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں تو بغیر گالی گلوچ نہ آپ مشہور ہو سکتے ہیں اور نہ ہی کامیاب سیاستدان بن سکتے ہیں۔ مگر جب وہ بندہ خود وزیراعظم بنتا ہے تو پھر وہ خود کو تنقید یا احتساب سے ماورا سمجھنے لگتا ہے۔ وہ اس مقام پر پہنچنے کیلئے لوگوں کو عظمت کے خواب دکھائے گا۔ اپنی قوم‘ مذہب اور ملک کو دنیا میں سب سے عظیم ثابت کرے گا۔ مذہب کارڈ کھیلے گا۔ قوم پرستی اجاگر کرے گا۔ دھیرے دھیرے وہ لوگوں کو یہ یقین دلا دیتا ہے کہ صرف ان کا مذہب ہی دنیا کا اعلیٰ ترین مذہب ہے‘ وہی اعلیٰ لوگ ہیں۔ بس انہیں صحیح لیڈر نہیں ملا۔ وہ لیڈر میں ہوں اور قوم کی خوش قسمتی ہے کہ میں انہیں مل گیا ہوں۔ اب میں تمہاری تقدیر بدل دوں گا۔ بس خیال رہے کہ میرے مخالفین مجھ پر کوئی اعتراض کریں نہ تنقید‘ ورنہ ترقی رک جائے گی۔

 

دوسری جانب وہ شخص خود اپنے مخالفین کا مذاق اڑائے گا‘ انہیں چڑائے گا‘ اس کے حامی بھی اس کے مخالفین کا ٹھٹھا اڑائیں گے۔ وہ ان کی باتوں‘ شکلوں اور بولنے کے انداز پر ہنسی مذاق کرے گا۔ لوگوں کی آنکھوں میں مخالفین کو مسخرہ ثابت کرے گا اور خود کو اہم انسان اور دانشور‘ کہے گا کہ لوگ خود کو خوش قسمت سمجھیں کہ مجھے بھیج کر تقدیر نے ان پر مہربانی کی ہے۔

 

رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ حالیہ پاک بھارت تنازعے میں راجیو گاندھی اور سونیا گاندھی کے صاحبزادے راہول گاندھی ایک مرتبہ پھر ایک مدبر سیاستدان کے طور پر مودی کے مقابلے میں سامنے آئے ہیں۔ ذرا مودی اور راہول گاندھی کا موازانہ کریں کہ دونوں کا بیک گراؤنڈ کیا ہے۔ مودی کو چائے والا کہا جاتا ہے جس نے اپنا کیریئر ایک چائے کے ڈھابے سے شروع کیا۔ قسمت نے ساتھ دیا یا بھارتی عوام کی مسلمانوں سے نفرت نے کہ وہ وزیراعظم بن گیا۔ نہ مودی کبھی کسی یونیورسٹی گیا‘ نہ اسے انگریزی زبان پر مہارت تھی لیکن وہ وزیراعظم بن گیا جس کی بھارتی معاشرے نے بہت قیمت ادا کی ہے کیونکہ جب بھارت میں سیکولرازم کی موت ہوئی تبھی مودی وزیراعظم بن سکا۔

دنیا پاکستانی ایئر فورس اور اسکے جہازوں میں دلچسپی کیوں دکھانے لگی؟

 

دوسری طرف آپ ذرا راہول گاندھی بیرونِ ملک کا پڑھا لکھا ہے جس کا باپ راجیو گاندھی وزیراعظم تھا‘ دادی اندرا گاندھی تین بار وزیر اعظم رہی‘ پھر پڑنانا جواہر لال نہرو چار مرتبہ وزیراعظم بنا‘ ماں سونیا گاندھی نے خود وزیراعظم بننے کے بجائے اپنی پارٹی کے منموہن سنگھ کو وزیراعظم بنایا۔

 

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ اب جب مودی اور ان کے فالوورز کو یہ سب کچھ نظر آتا ہے تو ان کے پاس اس بیک گراؤنڈ کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک ہی چیز بچ جاتی ہے کہ نہرو خاندان کا جو اکیلا چشم و چراغ بچا ہے اسے ذلیل کرو‘ اس کا مذاق اڑاؤ‘ اسے غرق کر دو۔ لیکن وہ غرق کیسے ہوگا کیونکہ وہ ابھی وزیراعظم نہیں بنا لہٰذا اس پر براہِ راست کوئی الزام یا تنقید نہیں ہو سکتی۔ بچ بچا کر ایک ہی کام ہے کہ اسے پپو کا نِک نیم دے کر ہر روز سوشل میڈیا اور ٹی وی شوز اور پارلیمنٹ میں اس کا مذاق اڑاؤ۔ ثابت کرو کہ وہ بچگانہ حرکتیں کرتا ہے۔ اس کے پاس عقل ہے نہ سمجھ‘ صرف نہرو خاندان میں پیدا ہونے کی وجہ سے خود کو مہان سمجھتا ہے۔

 

رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ راہول گاندھی پر حملے کرنے کیلئے نہرو خاندان کی ساکھ خراب کرنا بھی ضروری تھا لہٰذا نہرو کو پاکستان کی تخلیق کا ذمہ دار قرار دیا جانے لگا کہ وہ محمد علی جناح کو متحدہ ہندوستان کا وزیراعظم بننے دیتا تو پاکستان نہ بنتا۔ تا ہم سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ مودی کے ساتھیوں کی راہول گاندھی کے خلاف تمام تر مہم کے باوجود لگتا یہی ہے کہ مودی کی حکومت کا خاتمہ راہول کے ہاتھوں ہی ہوگا۔

Back to top button