پاکستانی سیاست 3 دہائیوں بعد 30 برس پیچھے کیسے چلی گئی؟

تین دہائیوں کے بعد پاکستان کی سیاست میں لانگ مارچ ، اسمبلیوں کے خاتمے اور نئے انتخابات کی یقین دہانیوں کے نعروں کی گونج ایک بار پھر سنائی دے رہی ہے۔ شاید 90 کی دہائی کی سیاست نئے کرداروں اور واقعات کا روپ دھار کر ہمارے سامنے جلوہ گر ہو رہی ہے۔ کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ جب بات سیاسی تاریخ کی ہو تو اس کے واقعات اور کردار کچھ ردوبدل کے ساتھ نئے روپ میں سامنے آتے ہیں۔
پاکستان کے قومی اور سیاسی افق پر عمران خان نے اپنے اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے ایک ہنگامہ برپا کر رکھا ہے اور حکومت پر فوری نئے الیکشن کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔
اردو نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق آج سے 30 برس قبل بھی پاکستانی سیاست اسی طرح کی سیاسی و آئینی ہنگامہ خیزی کی گرفت میں تھی۔ اسمبلیوں کا ٹوٹنا اور بحال ہونا، صوبائی گورنر اور وزیراعلیٰ میں قانونی اور انتظامی امور پر کشمکش، صدر اور وزیراعظم کے درمیان آئینی اختیارات کی کھینچا تانی اور نئے انتخابات کے لیے لانگ مارچ کے اعلانات۔ 1993 کے موسم گرما میں پاکستانی سیاست کے گرمیٔ بازار کا عنوان یہی موضوعات اور نعرے تھے۔ عمران خان کا آزادی مارچ اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے انتخابات کے لیے اسلام آباد آیا۔ جولائی 1993 میں بے نظیر بھٹو نے بھی انہی دو مقاصد کے لیے لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت توڑ دی۔ صدر نے نواز شریف کی حکومت ختم کر کے 14 جولائی 1993 کو قومی اسمبلی کے انتخابات کا اعلان کر رکھا تھا۔ اسمبلی توڑنے کے صدارتی اقدام کے خلاف نواز شریف نے 25 اپریل کو سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ عدالت عالیہ نے8 مئی سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا فیصلہ کیا۔ گیارہ رکنی بینچ میں سے صرف جسٹس سجاد علی شاہ نے نواز حکومت کی بحالی سے اختلاف کیا۔
لہکن 26 مئی کو سپریم کورٹ سے بحالی کے باوجود نواز شریف کو ایوان اقتدار سے رخصت ہونا پڑا۔ مگر اس بار وہ اکیلے نہ تھے بلکہ اس سیاسی کہانی کے سب سے بڑے کردار غلام اسحاق خان کی ایوان صدر سے رخصتی کا سامان بھی ہو گیا۔ اسلام آباد میں ایک ہی شام اتنے بڑے واقعات کا ظہور پہلی بار ہوا تھا۔جس کے پیچھے 15 جولائی سے جاری اقتدار کی تکون کے اجلاسوں میں طے ہونے والا انتقال اقتدار کا فارمولا تھا۔ اپوزیشن کا لانگ مارچ ملتوی ہونے کے بعد آرمی چیف کو ملک میں چھے ماہ سے جاری بحران کا حل نکالنے اور اس پر عمل درآمد کروانے کے لیے متحرک ہونا پڑا۔سرتاج عزیز کے مطابق آرمی چیف سے ملاقاتوں کے بعد یہ طے پایا کہ نواز شریف اٹھاون ٹو بی کےتحت صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش کریں گے۔ اسی طرح غلام اسحاق خان آرٹیکل 43 کے تحت اپنا استعفیٰ پیش کریں گے۔
آئی ایم ایف 30 روپے فی لیٹر اضافے پر بھی خوش نہیں ہوا
اب تین دہائیوں کے بعد پاکستان کی سیاست میں دوبارہ سے لانگ مارچ ، اسمبلیوں کے خاتمے اور نئے انتخابات کی یقین دہانیوں کے نعروں کی گونج ایک بار پھر سنائی دے رہی ہے۔ شاید 90 کی دہائی کی سیاست نئے کرداروں اور واقعات کا روپ دھار کر ہمارے سامنے جلوہ گر ہو رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ موجودہ حکومت کو جلد الیکشن کروانے پر مجبور کر پاتی ہے یا نہیں۔