اسٹیبلشمنٹ نے پراجیکٹ TLP کو لپیٹنے کا فیصلہ کیوں کیا ؟

وفاقی حکومت کی جانب سے ٹی ایل پی پر پابندی اور پنجاب حکومت کے سخت کریک ڈاؤن سے قبل پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تحریک لبیک وہ واحد مذہبی سیاسی جماعت تھی جس کے احتجاج کے بعد ہر مرتبہ ریاست نے ہتھیار ڈالے اور معاہدہ کر کے اس کے احتجاج سے جان چھڑوائی تھی۔ تحریک لبیک ہی وہ واحد تنظیم تھی جس کو کالعدم قرار دینے کے بعد نہ صرف فیصلہ واپس لیا گیا تھا بلکہ اسے قومی دھارے کی سیاست میں حصہ لینے کی بھی کھلی آزادی دی گئی تھی۔ ناقدین کے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس تنظیم کو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ یعنی جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے مین سٹریم سیاسی جماعتوں کو وقت پڑنے پر نیچا دکھانے کے لئے کھڑا کیا تھا اور اسی لیے کسی بھی حکومت کو تحریک لبیک کی شدت پسندی روکنے کے لیے کوئی کارروائی کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ اسی لئے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے تحریک لبیک کے پر تشدد مظاہروں کے بعد اس پر پابندی لگانے کی ہمت تو کر لی تھی لیکن وہ اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر 6 ماہ بعد ہی اس فیصلے کو واپس لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔ تاہم اب کی بار حکومت اور اسٹیبلشمنٹ تحریک لبیک کو مکمل طور پر ٹھوکنے میں ایک پیج پر آ چکی ہیں جس کے بعد تحریک لبیک کا دوبارہ میدان میں آنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
خیال رہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد سے لے کر اب تک مختلف دہائیوں میں کئی مذہبی تنظیمیں مختلف مطالبات منوانے کے لیے احتجاج کرتی رہی ہیں البتہ حالیہ برسوں میں سنی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والی تحریک لبیک پاکستان ریاست کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر اُبھری تھی۔ تحریک لبیک کے مظاہروں اور احتجاجی دھرنوں کے دوران ہلاکتوں کے علاوہ کئی روز تک ملک میں نظامِ زندگی مفلوج رہنے اور شہریوں کے جان و مال کو درپیش چیلنجز کی وجہ سے مختلف حکومتوں کے لیے یہ مسئلہ دردِ سر بنا رہتا تھا۔تحریک کے دھرنوں کے باعث حکومتوں کی جانب سے بھی بڑے فیصلے لیے جاتے رہے, کبھی وزرا کے استعفے تو کبھی فرانس کے خلاف قرارداد کی منظوری کے ذریعے بھی ان دھرنوں کو ختم کیا جاتا رہا۔ تاہم کبھی بھی اس جماعت پر شکنجہ کسنے کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔
یاد رہے کہ توہین مذہب کا الزام لگا کر جنوری 2011 میں پنجاب کے اس وقت کے گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے پولیس اہل کار ممتاز قادری کی 2016 میں پھانسی کے بعد تحریک لبیک بننا شروع ہوئی۔ ممتاز قادری کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے ملک بھر سے لاکھوں افراد لیاقت باغ آئے جن میں خادم حسین رضوی سمیت سنی مکتبِ فکر کے دیگر علما بھی شریک ہوئے۔ نماز جنازہ کے بعد ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا اور اہلِ سنت جماعتوں کے دھرنوں کے باعث نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔ گو کہ اس وقت تحریک لبیک کی باقاعدہ بنیاد نہیں رکھی گئی تھی، تاہم اہلِ سنت علما خادم حسین رضوی، پیر افضل قادری، انجینئر ثروت اعجاز قادری اور علامہ اشرف آصف جلالی سمیت ہزاروں کارکنوں نے اسلام آباد کے ریڈ زون ڈی چوک پر دھرنا دے دیا۔ کئی روز جاری رہنے والے دھرنے کے باعث وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ٹریفک کا نظام متاثر رہا جبکہ مشتعل افراد نے میٹرو بس اسٹیشنز سمیت املاک کو بھی نقصان پہنچایا جس پر متعدد افراد کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے۔ بعد ازاں مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں شامل بریلوی مکتبۂ فکر کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کے بعد گرفتار کارکنوں کی رہائی اور مقدمات واپس لینے کی حکومتی یقین دہانی پر دھرنا ختم ہوا۔ 2017 میں مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں قومی اسمبلی کے ارکان کے حلف نامے میں تبدیلی پر ٹی ایل پی نے اس وقت کے وزیرِ قانون زاہد حامد کا استعفیٰ طلب کیا۔
تحریک لبیک نے اسلام آباد کی جانب مارچ کر کے وفاقی دارالحکومت کو تین ہفتوں تک بند کیے رکھا۔ بعد ازاں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اور جنرل فیض حمید کی گارنٹی کے بعد حکومت کے ساتھ ہونے والے ایک معاہدے کے تحت ٹی ایل پی دھرنا ختم کرنے پر راضی ہو گئی جس کے تحت وفاقی وزیرِ قانون زاہد حامد مستعفی ہوئے۔ اس معاہدے میں فیض حمید نے بطور ضامن دستخط کیے تھے۔ ماہرین کے مطابق حکومت کو معاہدے کے لیے دباؤ میں لانے میں کامیابی سے ٹی ایل پی کی حوصلہ افزائی ہوئی اور یہ مزید منظم ہوئی۔
اسی دھرنے پر سپریم کورٹ نے فروری 2019 میں ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ سنایا جو فیض آباد دھرنا کیس کے نام سے مشہور ہوا۔ سپریم کورٹ کے دو رُکنی بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل تھے۔ عدالت نے حکومت کو حکم دیا کہ وہ ایسے فوجی اہل کاروں کے خلاف کارروائی کرے جو اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی معاملات میں مداخلت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ عدالتی حکم میں سڑکیں بلاک کرنے اور نقصِ امن کے مسائل پیدا کرنے والے عناصر کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیا گیا تھا۔ اس دوران فیض حمید کے حکم پر دھرنے کے اختتام پر شرکا میں رقوم تقسیم کرنے کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی۔ اکتوبر 2018 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہینِ مذہب میں سزائے موت پانے والی مسیحی خاتون آسیہ کو بری کرنے کا حکم دیا تو تحریک لبیک نے ایک بار پھر ملک بھر میں احتجاج کی کال دے دی۔ تحریک لبیک کے احتجاج کے باعث ملک بھر میں نظامِ زندگی ایک بار پھر مفلوج ہو کر رہ گیا اور مختلف شہروں کے اہم مقامات پر تحریک کے کارکنوں نے دھرنے دے دیے۔اس دوران حکومت نے ٹی ایل پی کی قیادت کے ساتھ مذاکرات کیے جس کے بعد پانچ نکاتی معاہدہ طے پایا۔معاہدے میں آسیہ بی بی کی رہائی کے خلاف نظرِ ثانی کی اپیل دائر کرنے، آسیہ بی بی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے اور تحریک کے کارکنوں کے خلاف درج مقدمات واپس لینے پر اتفاق کیا گیا۔
نومبر 2018 میں لاہور کے چیئرنگ کراس میں دھرنے کے دوران ریاستی اداروں، فوج اور عدلیہ کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے کے الزام میں تحریک لبیک کے رہنماؤں پیر افضل قادری اور علامہ خادم حسین رضوی کو گرفتار کر لیا گیا۔
بعد ازاں مئی 2019 میں پیر افضل قادری اور علامہ خادم حسین رضوی کو لاہور ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا کر دیا۔رہائی کے بعد ایک ویڈیو بیان میں پیر افضل قادری نے چیئرنگ کراس میں اپنی تقریر پر معذرت کرتے ہوئے تحریک لبیک سے علیحدگی کا اعلان کر دیا تھا۔ فرانس میں پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کی اشاعت اور فرانسیسی صدر کی اس اقدام کی بھرپور حمایت پر تحریک لبیک نے ایک بار پھر اسلام آباد مارچ کی کال دی۔ احتجاج روکنے کے لیے پولیس نے اسلام آباد کے داخلی اور خارجی راستوں پر کنٹینر کھڑے کر دیے اور اس دوران جھڑپوں میں پولیس اہل کار اور ٹی ایل پی کے کارکن زخمی بھی ہوئے۔ تحریک لبیک کا مطالبہ تھا کہ حکومت فوری طور پر فرانسیسی سفیر کو بے دخل کرے اور فرانس کے ساتھ تجارتی اور سفارتی روابط بھی ختم کیے جائیں۔ بعد ازاں حکومت کی جانب سے فرانس کے حوالے سے سخت مؤقف اپنانے اور سفیر کی بے دخلی کی یقین دہانیوں کے بعد ٹی ایل پی کے کارکن منتشر ہو گئے۔ فرانسیسی سفیر کی بے دخلی اور فرانس سے تعلقات منقطع نہ کرنے پر تحریک لبیک نے ایک بار پھر 20 اپریل کو فیض آباد میں دھرنے کی کال دی۔البتہ اس سے قبل نومبر 2020 کو خادم رضوی کے انتقال کے بعد امیر بننے والے اُن کے بیٹے سعد رضوی کی گرفتاری کے بعد حالات کشیدہ ہو گئے۔ٹی ایل پی کا احتجاج روکنے کے لیے پولیس اور رینجرز نے طاقت کا استعمال کیا اور لاہور کا علاقہ یتیم خانہ میدانِ جنگ کا منظر پش کرتا رہا۔ اس دوران جھڑپوں میں دو پولیس اہل کاروں سمیت پانچ افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔ حکومت نے ٹی ایل پی کو کالعدم جماعت قرار دے کر اسے تحلیل کرنے کی کارروائی بھی شروع کر دی اور فرانس کے سفیر کی بے دخلی کے لیے اسمبلی میں قرارداد لانے سے بھی انکار کر دیا۔
البتہ اس سب کے باوجود جب ٹی ایل پی اسلام آباد کی جانب مارچ پر بضد رہی تو حکومت نے فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے اسمبلی میں قرارداد لانے کی حامی بھر لی۔ حکومت کی جانب سے معاہدے پر عمل درآمد نہ کرنے اور جماعت کے اسیر قائد حافظ سعد حسین رضوی کو عدالتی احکامات کے باوجود رہا نہ کرنے پر تحریک لبیک نے ایک بار پھر اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ شروع کیا۔ اس دوران کئی پولیس اہلکار شہید ہوئے اور جی ٹی روڈ پر واقع شہروں میں نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔ حکومت نے تحریک لبیک کے کارواں کو وزیر آباد کے مقام پر روکا۔ ایک موقع پر حکومت نے اعلان کیا کہ لبیک والوں سے بزور بازو نمٹا جائے گا لیکن فوجی اسٹیبلشمنٹ نے حکومت کو ایک بار پھر لبیک والوں سے معاملات طے کرنے کی ہدایت کی اور پھر ایسا ہی ہوا۔ مفتی منیب الرحمان کی ثالثی میں حکومت اور تحریک لبیک کے مابین ایک خفیہ معاہدہ طے پایا جس کے بعد نہ صرف تحریک لبیک ہو کالعدم تنظیموں کی فہرست سے نکال دیا گیا بلکہ اسیر کارکنان بھی رہا کر دیئے گئے۔ جس کے بعد وزیر آباد میں بیٹھے تحریک لبیک کے ہزاروں کارکنان واپس آگئے۔
جبکہ اب ٹی ایل پی 10 اکتوبر کو ’لبیک یا اقصیٰ‘ کے نام سے لاہور تا اسلام آباد مارچ کے دوران پولیس اہلکاروں کو فائرنگ کر کے شہید کرنے اور جلاؤ گھیئراؤ کرنے پر ایک بار پھر زیر عتاب ہے۔ جہاں ایک طرف اسٹیبلشمنٹ نے اپنے بے بی کو مسلسل نافرمانی پر عاق کر دیا ہے وہیں حکومت نے اس پر انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت پابندی کی منظوری دے دی۔ تاہم اب دیکھنا ہے کہ حکومت اس پابندی کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتی ہے یا ماضی کی طرح اس پابندی پر یوٹرن لے لیتی ہے۔
