کیا عمران خان کی مقبولیت کی وجہ ان کا مولا جٹ سٹائل ہے؟

 

معروف ادیب، کالم نگار اور تجزیہ کار عطا اللہ قاسمی نے کہا ہے کہ عمران خان جو بھی ہیں اور جیسے بھی ہیں، بہر حال پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد انہیں اسی طرح پسند کرتی ہے جیسے وہ مولا جٹ کو پسند کیا کرتی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان بھی مولا جٹ کی طرح عوام میں مقبول ہیں، جس کا اندازہ انہیں اپنے ایک دورہ انڈیا کے دوران ہوا۔ قاسمی بتاتے ہیں کہ ممبئی سفر کے دوران انہوں نے ایک ٹیکسی ہائر کی، ڈرائیور کو پتہ چلا کہ میں پاکستان سے ہوں تو مجھے منزل مقصود پہنچانے تک وہ مقبول پنجابی فلم مولا جٹ کے ڈائیلاگ ببانگ دہل دہراتا رہا۔

روزنامہ جنگ کے اب لیے اپنے کالم میں عطا الحق قاسمی کہتے ہیں کہ میں عمران خان کے بارے میں بہت عرصے سے لکھنا چاہتا تھا لیکن یر بار یہ سوچ کر رک جاتاتھا’’ کتھے عمران خان، کتھے عطاء الحق قاسمی‘‘۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ عمران نے دوران تقریر ان کے لیے اظہار پسندیدگی کیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ خان صاحب نے دوران تقریر بہت غصیلی آواز میں کہا تھا ’’اوئے عطا الحق قاسمی، میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں‘‘۔ یعنی میں بھی سوہنے منڈے سعید مراد کی طرح عمران خان کی نظروں میں تھا لہذا میں ڈر گیا اور وہاں سے دم دبا کر نکل گیا۔

عطا قاسمی بتاتے ہیں کہ مجھے عمران خان پر کبھی غصہ آتا ہے تو کبھی پیار آتا ہے۔ اصل میں یہ دونوں پیار کی نشانیاں ہیں۔آپ کسی بھی ماہر نفسیات سے پوچھ لیں ،آپ تو پوچھیں گے یا نہیں البتہ ماہر نفسیات کو چاہیے کہ وہ ایک بورڈ بٹھائیں اور عمران خان کی زندگی کےتمام پیچ و خم پر غور کریں اور پھر قوم کو اپنی ہی ریسرچ کی روشنی میں بتائیں کہ آپ کا محبوب لیڈر آپ کےہی نہیں ماہر نفسیات کیلئے بھی ایک عمدہ سٹڈی کیس ہے۔ میں نے عمران خان کو صرف ایک بار دیکھا تھا جب وہ اپنے دوسرے دوستوں کے ساتھ میری طرف سے دی گئی ہاؤس وارمنگ پارٹی میں آئے تھے۔ میں نے باہر نکل کر ان کا استقبال کیا۔ وہ ڈی ایچ اے کی ایک سوسائٹی تھی۔ عمران خان نے ارد گرد نظر دوڑائی اور کہا بہت خوبصورت علاقہ ہے۔ وہ اندر تشریف لائے اور کافی دیر بیٹھے رہے اس پر میں نے ان کا شکریہ ادا کیا مگر میں نے محسوس کیا کہ شکریہ کا حق ادا نہیں ہوا۔ اس کے بعد میرا بنی گالا اور زمان پارک سے کبھی گزر نہیں ہوا۔ میں بہت دیر سے کوشش کر رہا ہوں کہ اور کچھ نہیں تو جیل میں ہی ان کی زیارت ہو جائے اور میں انکا شکریہ ادا کر سکوں مگر ظالم سماج ملنے نہیں دیتا۔

قاسمی کہتے ییں کہ میں ابھی ایک سچی بات کہنے لگا ہوں جو بہت سے لوگوں کو پسند نہیں آئے گی، وہ یہ کہ عمران خان دل کے برے نہیں ہیں مگر وہ جو کچھ کرتے ہیں اضطراری طور پر کرتے ہیں۔کسی زمانے میں انہوں نے نواز شریف کی اتنی تعریف کی جتنی وہ قمر جاوید باجوہ کی کیا کرتے تھے۔ یقین کریں میرا یہ محبوب لیڈر بہت بھولا بھالا اور معصوم ہے اس کی جگہ کوئی چالاک لیڈر ہوتا تو خود کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہلانے کے حوالے سے کئی جرنیلوں سے یاریاں نہ گانٹھتا، جنرل قمر جاوید باجوہ کو تو انہوں نے یہ کہہ کر اپنے باپ کا دررجہ دے دیا کہ آرمی چیف قوم کا باپ ہوتا ہے۔انہوں نے ہر دور میں اسٹیبلشمنٹ سے بنائے رکھی خصوصاً جنرل فیض حمید سے تو وہ مسلسل فیض یاب ہوئے جب طاہر القادری سے مل کر انہوں نے نواز شریف کے ساتھ ایک سو چھبیس دن کا طویل ترین دھرنا دیا۔

عطا الحق قاسمی کہتے ہیں کہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنے کے نام پر کنٹی رز میں جو کچھ ہوا وہ لکھنا حدِ ادب کے زمرے میں آتا ہے۔ ان دنوں سپریم کورٹ کی دیواروں پر شلواریں اتار کر لٹکائی اور سکھائی جاتی رہیں۔ پی ٹی وی کی اسلام آباد بلڈنگ پر قبضے کی غرض سے حملہ کیا گیا۔ اس وقت پوری ریاستی مشینری عمران خان کی پشت پر تھی۔ڈی چوک کے تماشائی رات گئے تک وہاں جو کچھ کرتے رہے اس کیا استعمال شدہ ’’نشانیاں‘‘بعد میں صفائی کے دوران سامنے آئیں۔ عطا الحق قاسمی کہتے ہیں کہ میں شاید اور بھی بہت کچھ لکھتا مگر عمران خان ان دنوں جیل میں ہیں۔ انہیں جیل میں جتنی بھی سہولتیں ملی ہوں جیل بہرحال جیل ہوتی ہے۔ جیل میں وہ پارٹی لیڈروں سے ملتے اور انہیں ہدایات بھی دیتے ہیں مگر ان میں سے کچھ پارٹی لیڈر بے ہدایتے ہیں۔ کچھ عرصہ سے خان کی ملاقاتیں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں مگر بچے کو زیادہ سے زیادہ ایف اے تک رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے سو انہیں اچھی طرح معلوم ہےکہ انہوں نے کیا کرنا ہے چنانچہ وہ احتیاط کا آپشن استعمال کرتے ہیں۔ سچی بات پوچھیں اگر بے بس لیڈروں کی کوئی سننے والا ہوتا تو بھی کافی ہل جل ہو سکتی تھی مگر ان کی کوئی سنتا نہیں اور یہ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ان کی کوئی سنتا نہیں۔

قاسمی کہتے ہیں کہ میں یہاں قوم کی اس بدقسمتی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستانیوں کو ایک عرصہ بعد ایسا لیڈر ملا تھا جسے سنا جاتا تھا مگر لیڈر کو لیڈ کرنا نہیں آیا۔اس کے باوجود کروڑوں لوگوں نے انہیں خوش آمدید کہا مگر انہیں جو رستہ دکھایا گیا وہ صرف توڑ پھوڑ کا تھا۔تحریک انصاف کو طاہر القادری اور جنرل فیض حمید کی بھر پور حمایت حاصل تھی لیکن جب جنرل تک پہنچنے کیلئے صحیح راستوں کا انتخاب نہ کیا جائے تو عوام کا جم غفیر بھی ارد گرد کی گلیوں میں بکھر کر رہ جاتا ہے اوپر سے بلنڈر یہ کیا گیا کہ حکومت کی بجائے ریاست سے ٹکرانے کی کوشش کی گئی۔ ان فوجی شہیدوں کے مجسمے توڑے گئے جنہوں نے ملک کے دفاع کیلئے جانیں قربان کی تھیں۔ عمران خان کو’’اندرون خانہ‘‘ صرف ہلا شیری نہیں ممکنہ امداد بھی فراہم کی گئی مگر ان کا ایک مقصد آنے والے چیف کا راستہ روکنا اور ان کی کرسی خود سنبھالنا تھا مگر اس’’جلد بازی ‘‘کا انجام یہ ہوا کہ اقتدار کی منزل بہت دور ہو گئی۔

قاسمی کہتے ہیں کہ عمران خان کے اندر اگر ایک خرابی نہ ہوتی تو وہ ملک و قوم کا ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہوتے۔ یہ خرابی ان کی خود پسندی ہے۔ وہ خود پر عاشق ہیں کیونکہ وہ ایک سیلف سینٹرڈ شخص ہیں۔ ایسا شخص پہلے اپنے بارے میں سوچتا ہے، بعد میں کسی اور کے بارے میں۔آپ اندازہ لگائیں موصوف نے اپنے عزیز ترین دوستوں کے جنازے میں شریک ہونا تو کیا کبھی ان سے تعزیت تک کرنا مناسب نہیں سمجھا۔یہ ایک بہت عجیب و غریب بات جو سراسر بدتہذیبی ہے۔ خان صاحب گھر آئے ہوئے مہمان کے سامنے بیٹھ کر چائے پیتے اور کھانا کھاتے ہیں اور اگلے کو صلح تک نہیں مارتے۔

عطاءاللہ قاسمی کہتے ہیں کہ پاکستانی قوم کو نواز شریف کے بعد ایک اور مقبول لیڈر ملا تھا۔ اگر نواز شریف نے ملک کی تقدیر نہیں بدلی تو اسے ٹھیک راستے پر ڈالنے کی کامیاب کوشش ضرور کی تھی، لیکن عمران خان جو آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ہیں وہ اہنے تمام سیاسی فیصلے اپنی تیسری اہلیہ بشریٰ بی بی عرف پنکی پیرنی کے ’الہامی‘ علم کے تحت کرتے رہے جن کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔

Back to top button