ججز آپس کی لڑائی میں سیاست دانوں سے بھی زیادہ سیاسی کیسے ہو گئے؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی آپسی لڑائی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اج صورتحال یہ ہے کہ سپریم کورٹ سے لے کر ہائی کورٹس تک آپس میں لڑنے والے ججز سیاست دانوں سے بھی زیادہ سیاسی ہو چکے ہیں۔ اس لڑائی میں ایک ایسی سیاست بھی ہو رہی ہے جس نے پہلے ہی عدلیہ کا بہت نقصان کیا ہے اور اب اس ادارے کی بچی کھچی ساکھ کا بھی جنازہ نکال رہی ہے۔ انکا کہنا یے کہ عدلیہ کی اندرونی سیاست، آپسی لڑائیوں اور ججز کے متنازع سیاسی فیصلوں نے اس نہ صرف ملک بلکہ سسٹم کا بھی نقصان کیا یے۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں انصار عباسی کہتے ہیں کہ کل جو جج حضرات عمراندار اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر اس کی مرضی کے فیصلے دے رہے تھے اج وہ عدلیہ کی ازادی کے ٹھیکیدار بن گئے ہیں۔ تب بغیر میرٹ کے پسند اور ناپسند کی بنیاد پر اپنی مرضی کے جج اعلیٰ عدلیہ میں تعینات کیے گے، نہ کسی اصول کو دیکھا گیا اور نہ ہی کسی کی اہلیت اور شہرت کو اہمیت دی گئی۔ اعلیٰ عدلیہ کے اندر کا اپنا نظام بھی ادارے کا اپنا محاسبہ کرنے میں مکمل ناکام رہا۔ تمام تر اختیارات اورآئین و قانون میں دی گئی آزادی اور اختیار کے باوجود عدلیہ نے اپنی اصل ذمہ داری یعنی عوام کو جلد اور سستا انصاف دینے کی طرف توجہ نہ دے کر دوسروں کو موقع دیا کہ وہ اعلیٰ عدلیہ میں تعیناتیوں کے اُس سسٹم کو بدل دیں جس میں پہلے سارا اختیار صرف اور صرف عدلیہ اور ججوں کے پاس تھا۔
انصار عباسی کہتے ہیں کہ ججوں کی سیاست اور آپس کی لڑائیوں نے آئین کی متنازع 26ویں ترمیم کا رستہ کھولا جسے ججوں کے ایک طبقہ نے آزاد عدلیہ پر حملے کا رنگ دے دیا۔ وکلاء اور سیاسی جماعتوں میں سے اس آئینی ترمیم کے خلاف کچھ آوازیں بھی اُٹھیں لیکن عوامی سطح پر نہ کوئی احتجاج ہوا نہ کوئی ریلی نکلی۔کچھ سیاسی جماعتوں اور وکلاء کے ایک طبقہ نے کوشش کی کہ لوگ نکلیں، کچھ جج بھی ایسے اقدام کرتے رہے کہ ماضی کی طرح آزاد عدلیہ کی کوئی تحریک شروع ہو جائے لیکن اب تک ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ ججوں کی آپس کی لڑائیاں مزید کھل کر سامنے آرہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے جج آج بھی ایک دوسرے کے سامنے ہیں جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سات ججوں کی طرف سے ایک خط بھی سامنے آ گیا جس میں اُن کا مطالبہ تھق کہ اسلام آباد کا نیا چیف جسٹس کسی دوسری ہائی کورٹ کا جج نہ بن پائے بلکہ اُن ہی میں کسی کو چیف جسٹس بنایا جائے۔ اسی دوران صدر پاکستان نے مختلف ہائی کورٹس کے تین ججوں کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں تعینات کر دیا جس کا مطلب یہ ہوا کہ سات ججوں نے جو خط چیف جسٹس آف پاکستان اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹسوں کو لکھا اُس کے برعکس ہی صورتحال بنتی نظر آ رہی ہے اور جسٹس سرفراز ڈوگر نئے چیف جسٹس بننے جا رہے ہیں۔
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ ججز کو جو بات سمجھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ اگر انتظامیہ بشمول فوجی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے آزاد عدلیہ کو کمپرومائز کیا جا رہا ہے تو کیا جب بقول انکے عمران خان دور میں آزاد عدلیہ تھی تب جج کمپرومائزڈ نہیں تھے۔ اگر تھے تو پھر حقیقت میں کیا بدلا ہے۔ جج آپس میں تب بھی لڑ رہے تھے اور سیاست کررہے تھے اور 26ویں ترمیم آنے کے بعد بھی یہی صورت حال ہے۔ جب ہماری عدلیہ آئین کے تحت مکمل آزاد تھی وہ تب بھی دنیا میں آخری نمبروں پر تھی اور اب بھی یے۔
انصار عباسی کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کی عدلیہ کو اپنی ساکھ میں بہتری لانی ہے تو اس کیلئے سب سے پہلے عوام کو جلد اور سستا انصاف دینا ہو گا۔ کوئی جج جتنی بھی اچھی باتیں کرے اس کا کچھ اثر اُس وقت تک نہیں ہو گا جب تک عوام کو یہ احساس نہ ہو کہ اگر ہم سے کوئی ناانصافی ہوتی ہے تو ہمیں عدالتوں سے انصاف ملے گا۔ یہ انصاف پاکستان میں نہ پہلے ملتا تھا نہ اب مل رہا ہے۔ عوام عدالتوں سے انصاف لینے کیلئے ہر روز لاکھوں کی تعداد میں کورٹ کچہریوں میں رُل رہے ہوتے ہیں۔ اُن کی زندگیاں گزر جاتی ہیں لیکن انصاف نہیں ملتا۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو اپنی اصل اور بنیادی ذمہ داری یعنی ایک عام فرد کو جلد اور سستا انصاف دینے کے خواب کی تعبیر کیلئے دن رات کام کرنا چاہیے۔ جب عدلیہ پر عوام کا اعتماد ہو گا، جب پاکستان کی عدلیہ جلد اور سستا انصاف ایک عام پاکستانی کو فراہم کرنا شروع کر دے گی، جب برسوں ،دہائیوں سے لاکھوں زیر التوامقدمات کا فیصلہ ہو گا تو پھر عوام بھی عدلیہ اور ججوں کیساتھ کھڑے نظر آئینگے۔ ماضی میں آزاد عدلیہ کی لڑائی عوام نے لڑی اور جیتی بھی لیکن اُس لڑائی کے نتیجے میں انصاف مزید مہنگا ہو گیا، جلد اور سستا انصاف ایک خواب ہی رہا جبکہ اعلیٰ عدلیہ کے جج سیاستدانوں سے زیادہ سیاسی ہو گئے، وہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں بھی خوب استعمال ہوئے اور یوں ججوں اور عدلیہ نے سب سے پہلے آزاد عدلیہ پر حملے کیا اور دوسروں کیلئے عدلیہ پر حملے کرنے کیلئے جواز پیدا کیے۔