10 افراد کی ہلاکت کے بعد آزاد کشمیر میں معاہدہ کیسے طے پایا؟

آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی اور حکومت کے مابین کئی ہفتوں کی کشمکش اور پر تشدد مظاہروں میں 10 افراد کی ہلاکت کے بعد بالاخر وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے تشکیل کردہ کمیٹی ایک معاہدہ طے کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ حکومتی کمیٹی اور عوامی ایکشن کمیٹی کے مابین معاہدہ طے پانے کے بعد پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن سٹرائک ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ مذاکراتی کمیٹی کے رکن اور وفاقی برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر معاہدہ طے پانے کی تصدیق کی۔ احسن اقبال نے معاہدے کو ’پاکستان، کشمیر اور جمہوریت کی جیت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’آزاد کشمیر کے عوام ہمیشہ پاکستان کے قومی کاز کے فرنٹ لائن پر کھڑے رہے ہیں اور ان کی آواز میں بہت وزن ہے۔‘ دوسری جانب اس احتجاج کو منظم کرنے والی جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے رکن شوکت نواز میر نے بھی معاہدے کو کشمیر کے عوام کی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم نے اپنے بیش تر مطالبات حاصل کر لیے ہیں۔ عوام مطمئن رہیں کہ ہم فتح یاب ہوئے ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ احتجاج کے دوران جان سے جانے والے ساتھیوں کی وجہ سے ہم غمزدہ ہیں اور اس سلسلے میں ریاست بھر میں تین روزہ سوگ منایا جائے گا۔
جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی اپنے 38 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ کے ساتھ دو ہفتے تک بھر پور احتجاج کیا۔ ان مطالبات میں انفراسٹرکچر کی بہتری، صحت اور تعلیم کی سہولتوں کی فراہمی، جنگلات کے کٹاؤ کو روکنے، اشرافیہ کی مراعات کے خاتمے اور پاکستان میں مقیم مہاجرین کی کشمیر اسمبلی میں 12 نشستوں کے خاتمے جیسے مطالبات شامل تھے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کا مؤقف تھا کہ حکومت نے گذشتہ برس 8 دسمبر کو طے پانے والے معاہدے کے بعد کیے گئے نوٹیفیکیشنز پر عمل نہیں کیا۔
آزاد کشمیر میں پرتشدد مظاہروں کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس مذاکراتی ٹیم میں وزیر امور کشمیر امیر مقام، رانا ثناء اللہ، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، احسن اقبال، راجہ پرویز اشرف، قمر الزمان کائرہ، سردار محمد یوسف، اور آزاد کشمیر کے سابق صدر مسعود خان شامل تھے۔ مظفرآباد حکومت کے دو وزرا فیصل ممتاز راٹھور اور دیوان علی چغتائی بھی اس ٹیم کا حصہ تھے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے اس کی کور کمیٹی کے تین ارکان راجہ امجد علی خان ایڈووکیٹ، شوکت نواز میر اور انجم زمان اعوان مذاکرات کر رہے تھے۔
حکومتی ٹیم اور عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت چند اہم نکات پر اتفاق کیا گیا ہے جن پر فوری عمل درامد کیا جائے گا۔ کشمیر کی عوامی ایکشن کمیٹی نے اس معاہدے کو جمہوریت کی فتح قرار دیا ہے کیونکہ اسکے بیشتر مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں۔ معاہدے کی روشنی میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ یکم اور 2 اکتوبر کے پرتشدد واقعات میں ہونے والی ہلاکتوں پر انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج ہوں گی اور جہاں ضرورت ہو وہاں عدالتی کمیشن بنایا جائے گا۔ احتجاج کے دوران ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو وہی معاوضہ دیا جائے گا جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو دیا جاتا ہے۔ گولی لگنے سے زخمی ہونے والے افراد کو فی کس 10 لاکھ روپے دیے جائیں گے جبکہ مرنے والوں کے لواحقین میں سے ایک فرد کو سرکاری ملازمت دی جائے گی۔
تعلیمی اصلاحات کے حوالے سے ہونے والے فیصلے میں مظفرآباد اور پونچھ ڈویژن میں دو نئے تعلیمی بورڈ قائم کیے جائیں گے۔ کشمیر کے تمام تعلیمی بورڈز کو تین دن میں وفاقی بورڈ اسلام آباد سے منسلک کیا جائے گا۔ میرپور ڈیم کے متاثرہ خاندانوں کی زمینوں کو 30 دن میں قانونی حیثیت دی جائے گی۔ آزاد کشمیر کے موجودہ بلدیاتی قانون کو 1990 کے اصل قانون کے مطابق اور عدالتِ عظمیٰ کے فیصلوں کی روشنی میں 90 دن کے اندر ترامیم کے ذریعے بہتر بنایا جائے گا۔ ہیلتھ کارڈ کے لیے پندرہ دن میں فنڈز جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ہر ضلع میں ایم آر آئی اور سی ٹی سکین مشینیں مرحلہ وار فراہم کی جائیں گی۔
اس کے علاوہ حکومت پاکستان آزاد کشمیر کے بجلی کے نظام کی بہتری کے لیے 10 ارب روپے فراہم کرے گی۔ یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ کشمیر کی کابینہ کا حجم کم کر کے زیادہ سے زیادہ 20 وزرا اور مشیر رکھے جائیں گے۔ اس کے علاوہ سیکرٹریز کی تعداد بھی 20 سے زیادہ نہیں ہو گی۔ اس معاہدے میں یہ بھی طے ہوا ہے کہ احتساب بیورو اور اینٹی کرپشن کے ادارے کو ضم کیا جائے گا اور تمام احتساب قوانین کو نیب قانون کے مطابق بنایا جائے گا۔ اس کے علاوہ آزاد کشمیر کے ترقیاتی منصوبے میں نیلم ویلی روڈ پر دو ٹنلز کی تعمیر کے لیے فزیبلٹی رپورٹ تیار کی جائے گی۔
ایک آئینی کمیٹی کی تشکیل پر بھی اتفاق کیا گیا ہے جس میں حکومت پاکستان، حکومت آزاد کشمیر اور عوامی ایکشن کمیٹی کے دو دو قانونی ماہرین شامل ہوں گے۔
