پاک امریکہ انٹیلی جنس اور سیکیورٹی تعاون کیسے بحال ہوا؟

نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان اور امریکہ کے مابین انٹیلیجنس کو آپریشن دوبارہ سے بحال ہو گئی ہے جس کا ایک بڑا ثبوت امریکہ کو مطلوب دہشتگرد شریف اللہ کی پاکستان سے گرفتاری ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس سے خطاب کے دوران اعلان کیا ہے کہ 2021 میں کابل بم دھماکے میں 13 امریکی فوجیوں اور 170 افغانیوں کو ہلاک کرنے والا داعش کا مطلوب ترین ’ٹاپ دہشت گرد‘ پاکستان کی مدد سے پکڑا گیا ہے، جسے پاکستان نے امریکہ کے حوالے کر دیا یے۔

اس اعلان سے جہاں امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی وہیں پاکستان میں بھی مختلف حلقے امریکہ اور پاکستان کے مابین انٹیلی جنس اور سکیورٹی تعاون کی بحالی کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ پاکستانی ملٹری اور سویلین حکام اس امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ یہ اقدام آنے والے دنوں میں پاک امریکہ تعلقات کو بہتری کی جانب لے کر جائے گا۔ تاہم سب سے زیادہ سوال یہ پوچھا جا رہا ہے کہ شریف اللہ نامی ’ٹاپ دہشت گرد‘ کون ہے؟ کہاں سے پکڑا گیا اور کس نے پکڑا؟

دستیاب معلومات کے مطابق شریف اللہ داعش کے ان کمانڈرز میں سے ہے، جن کے بارے میں ماضی میں زیادہ معلومات سامنے نہیں آئیں تاہم امریکہ اسے اگست 2021 میں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے دوران کابل ایئرپورٹ کے گیٹ پر ہونے والے دھماکے میں 13 امریکی اہلکاروں سمیت 140 سے زیادہ افراد کی ہلاکت کا ذمہ دار اور ’ماسٹر مائنڈ‘ کہتا ہے۔ پاکستانی حکام نے تصدیق کی ہے کہ شریف اللہ کو تقریبا دو ہفتے پہلے پاک افغان سرحدی علاقے سے پکڑا گیا اور یہ پاکستانی سکیورٹی اداروں کا اپنا آپریشن تھا جس کے لیے اسے انٹیلیجنس معلومات امریکی سی آئی اے اور ایف بی آئی نے فراہم کیں۔

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق شریف اللہ کابل کا رہائشی اور داعش خراسان کا ’ٹاپ آپریشنل کمانڈر‘ ہے۔ سکیورٹی حکام کے مطابق ’پاکستانی سکیورٹی فورسز پہلے ہی اس کی تلاش میں تھیں اور امریکی خفیہ اداروں کی جانب سے کچھ ہفتے قبل فراہم کی جانے والی خفیہ انٹیلیجنس انفارمیشن اسکی گرفتاری میں کافی مددگار ثابت ہوئی۔ اس سے پہلے امریکی حکام نے پاکستانی عسکری اور سویلین قیادت سے شریف اللہ کی گرفتاری کی درخواست دی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ پاکستانی حکام نے شریف اللہ کو گرفتار کرنے کے بعد ’ضروری قانونی کارروائی‘ کرتے ہوئے اسے امریکہ بھجوا دیا ہے۔

پاکستان میں سکیورٹی ایشوز کے مقبول جریدے ’خراسان ڈائری‘ کے ایڈیٹر افتخار فردوس کے مطابق شریف اللہ کو دو ہفتے قبل افغانستان اور پاکستان کے بارڈر سے پاکستانی اہلکاروں نے امریکی ایجنسیوں کی نشاندہی پر پکڑا۔ افتخار فردوس نے بتایا کہ ’شریف اللہ افغانستان کے دارلحکومت کابل کا رہنے والا ہے اور سلفی نظریات کا حامل ہے۔‘ شریف اللہ نے 2016 میں داعش خراسان میں شمولیت اختیار کی لیکن بعدازاں گرفتار ہو گیا۔ تاہم 2019 میں یہ افغانستان کی ایک جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ 26 اگست 2021 کو کابل ائیر پورٹ پر ہونے والے بم دھماکے کے بعد یہ مسلسل روپوش تھا اور اپنے قیام کے مقامات تبدیل کرتا رہتا تھا۔

شریف اللہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ کسی حد تک تعلیم یافتہ تھا تاہم شدید سلفی خیالات کی وجہ سے داعش کا رکن بن گیا۔ ذرائع کا کہاں ہے کہ شریف اللہ ایک نہیں بلکہ کئی دہشت گرد حملوں کا ماسٹر مائنڈ ہے۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ شریف اللہ کو حراست میں لیتے وقت چار مزید داعش کمانڈرز بھی اس کے ہمراہ گرفتار کیے گئے۔ یاد رہے کہ داعش دراصل طالبان مخالف تنظیم ہے۔ داعش پاکستان کے علاقوں باجوڑ، خیبر، کرم اور پشاور میں موجود ہے اور اس کے سینیئر کمانڈرز کو پکڑنے کے لیے پاکستانی اداروں نے گذشتہ دنوں ایک بڑا آپریشن کیا تھا۔

دوسری طرف امریکی محکمہ دفاع کے ایک سینیئر اہلکار نے شریف اللہ کو 14 روز قبل پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی اور امریکی ایجنسی سی آئی اے کی ایک مشترکہ کارروائی میں گرفتار کرنے کا دعوٰی کیا ہے۔ ایک اور سینیئر امریکی اہلکار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے نے گذشتہ دنوں شریف اللہ کی موجودگی کے بارے میں مکمل معلومات پاکستانی سکیورٹی حکام کو دیں جس کے بعد پاکستانی فوج کے ایک اعلٰی تربیت یافتہ دستے نے اسے پاکستان افغانستان سرحد کے قریب سے پکڑا۔

سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ’ہائی پروفائل دہشت گرد شریف اللہ کی گرفتاری پاکستان اور امریکہ کے مابین اینٹی ٹیررزم کو آپریشن اور کاؤنٹر ٹیررازم کی مد میں قریبی تعلقات کا نتیجہ ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ افغانستان سے اپنے چھوڑے گئے ہتھیار اور جنگی سازو سامان واپس لینے کا اعلان بھی کر چکے ہیں کیونکہ یہ غیر ملکی ہتھیار پاکستان کے اندر دہشت گردی پھیلانے میں استعمال کیے جا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ سابق امریکی صدر جو بائیڈن کے دور میں پاکستان اور امریکہ کے مابین انسداد دہشت گردی کے لیے کافی کام ہوا تھا جس میں بعدازاں تعطل آ گیا تھا، تاہم اب یہ تعاون آگے بڑھنے کے وسیع امکانات ہیں۔

Back to top button