انسانی حقوق کی تنظیمیں میڈیا مخالف پیکا ایکٹ  کیخلاف ڈٹ گئیں

آن لائن ڈس انفارمیشن کے خلاف جاری حکومتی کریک ڈاؤن پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے مخالف آوازوں کو خاموش کرانے کا جارحانہ کوشش قرار دے دیا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے نئے سائبرکرائم پیکا قانون کو صحافیوں کی تنقیدی آوازوں کو خاموش کرنے اور سیاسی اتنقامی کارروائیوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

خیال رہے کہ شہباز حکومت کی جانب سے آن لائن مواد بارے سخت قوانین متعارف کروانے کے بعد سے انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپوں اور ڈیجیٹل حقوق کے حامیوں کی طرف سے پاکستان میں آزادئی صحافت کے بارے میں نئے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے ناقدین کا کہنا ہےکہ حکومت نئے سائبر قوانین کے نفاذ کے ذریعے عوام کی زبان بندی کی کوشش کر رہی ہے تاہم عوام یہ کوشش کامیاب نہیں ہونے دینگے۔
واضح رہے کہ ترمیم شدہ پیکا یعنی ‘پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ‘‘ کے تحت معاشرے میں خوف، گھبراہٹ یا بدامنی کو بھڑکانے کیلئے جھوٹی معلومات کو جان بوجھ کر آن لائن پھیلانا جرم ہے ۔ اس قانون کے تحت حکام کو ممکنہ طور پر وسیع تر اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا صارفین کے خلاف غلط معلومات پھیلانے پر تین سال تک قید اور 2 ملین روپے تک کے جرمانے کی اجازت ہے جبکہ کسی بھی شخص کو دونوں سزائیں بھیدی جا سکی ہیں۔

پیکا ایکٹ کے مطابق ایسا مواد جو پاکستان کے نظریے کے خلاف ہو، جو افراد کو قانون ہاتھ میں لینے کے لیے اشتعال دلائے یا اس تناظر میں عوام، افراد، گروہوں، کمیونٹیز، سرکاری افسران اور اداروں کو خوف میں مبتلا کرے، غیر قانونی مواد ہے۔ایسا مواد جو عوام یا ایک سیکشن کو سرکاری یا نجی جائیداد کو نقصان پہنچانے کے لیے اشتعال دلائے، قانونی تجارت یا شہری زندگی میں خلل ڈالے، ایسا مواد بھی غیر قانونی ہو گا۔تشدد کو ہوا دینے یا اندرونی خلل پیدا کرنے کے لیے مذہبی، فرقہ وارانہ یا نسلی بنیادوں پر نفرت اور توہین کو ہوا دینے والا مواد بھی غیرقانونی ہو گا۔پیکا ایکٹ کے تحت پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین، عدلیہ، مسلح افواج سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے، ریاستی اداروں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں اور دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے والا مواد بھی غیرقانونی قرار دیا گیا ہے۔

تاہم جہاں ایک طرف پاکستانی صحافی برادری پیکا ایکٹ کو آزادی صحافت کے خلاف کالا قانون قراردے کر مسلسل سراپا احتجاج ہے وہیں دوسری جانب حکومت کی جانب سے پیکا ایکٹ کے تحت صحافیوں سمیت سیاسی سوشل میڈیا مخالفین کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

حالیہ کچھ عرصے میں پیکا ایکٹ کے تحت گرفتار ہونے والے صحافیوں میں فرحان ملک اور وحید مراد بھی شامل ہیںسعودی عرب کے ملکیتی روزنامہ اردو نیوز کے رپورٹر مراد کو مبینہ طور پر ”آن لائن غلط معلومات‘‘ پھیلانے کے الزام میں راتوں رات ان کی رہائش گاہ پر چھاپا مار کر گرفتار کیا گیا تھا۔وحید مراد کے مطابق پیکا قانون کا غلط استعمال کرتے ہوئے صحافیوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے سے پہلے ہی انہیں اٹھا لیا جاتا ہے۔ میرے کیس میں بھی یہی طریقہ کار اپنایا گیا۔‘‘ اسی طرح پاکستان کے ایک سوشل میڈیا چینل ”رفتار‘‘ کے بانی فرحان ملک کو بھی ”غلط معلومات پھیلانے اور تشدد کو ہوا دینے کے لیے ریاست مخالف اشاعتوں اور ویڈیوز بنانے اور پھیلانے‘‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
پیکا قوانین کے تحت بڑھتی ہوئی حکومتی کارروائیوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے معروف قانون دان ایمان مزاری کا کہنا ہے کہ ”ریاست مین اسٹریم میڈیا پر اپنے مکمل کنٹرول سے مطمئن نہیں ہے اور اس لیے سوشل میڈیا کو دبانے کی اس کی بے چینی اور کوتاہ بینی ظاہر ہو رہی ہے۔‘‘ اسی لئے ناقد صحافیوں اور سماجی کارکنان کی گرفتاریوں میں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
دوسری جانب بعض دیگر قانون ماہرین پیکا ایکٹ کو’ڈریکونین اور سفاکانہ‘‘ قرار دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ حقیقت میں پیکا ایکٹ ریاستی بیانیے پر تنقید کو کنٹرول کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ پاکستان میں اب آپ حکومتی اقدامات پر سوال بھی نہیں اٹھا سکتے، آپ کو خاموش کر دیا جائے گا اور اگر آپ بولیں گے تو پولیس آپ کو اٹھا لے گی۔‘‘ ان کا مزید کہنا ہے کہ نام نہاد ”ڈیپ اسٹیٹ‘‘ پیکا قوانین کے ذریعے بیانیے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے سوشل میڈیا پر ایسے صحافیوں کو کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا ہے جو یوٹیوب کو اپنے خیالات کو پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزیدکہا کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ بیرون ملک بیٹھ کر جھوٹا منجن بیچنے والے یوٹیوبرز پر سخت برہم ہے اور وہ انھیں ہر صورت شکنجے میں لانے کی خواہاں ہے اسی مقصد کیلئے ایسے یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا انقلابیوں کے خاندان کے پاکستان میں رہنے والے افراد کو ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری ہے

دوسری جانب سماجی کارکن اور ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن کی بانی نگہت داد کے مطابق پیکار ایکت کے تحت نیت پر بھی مقدمہ درج ہو سکتا ہے۔ ایک خطرناک اقدام ہے کیونکہ آپ کی خلاف کوئی بھی شکایت کنندہ ہوسکتا ہے۔ عمومی طور پر متاثرہ فریق ہی درخواست دے سکتا ہے لیکن یہاں کوئی بھی اٹھ کر آپ کے خلاف درخواست دے سکتا ہے۔’حکومت آن لائن مواد کو کرمنالئز کر دیا ہے جس کے بعد خصوصی طور پر وی لاگرز کے لیے کوئی بھی خبر تصدیق کے بغیر دینا مشکل ہو چکا ہے۔‘ ان کا مزید کہنا ہے کہ قید یا بھاری جرمانے کی دھمکی افراد، صحافیوں، کارکنوں اور ناقدین کی قانونی نتائج کے خوف سے اہم معاملات پر بولنے کی حوصلہ شکنی کررہی ہے، چاہے ان کے بیانات سچے ہوں یا نیک نیتی سے دیے گئے ہوں۔ ’یہ ترمیم سٹیٹس کو کو چیلنج کرنے والی آوازوں کو خاموش کر رہی ہے، جس سے جہاں عوامی بحث کا گلا گھونٹا جا رہا ہے وہیں تنقیدی آوازیں بھی خاموش ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔‘

Back to top button