60ہزار پاکستانی اس سال حج کی سعادت سے محروم کیسے ہوئے؟

حکومتی نااہلی اور پرائیویٹ حج آرگنائزرز کے مابین باہمی تعاون میں کمی کی وجہ سے پرائیویٹ سکیم کے تحت حجاز مقدس جانے کے خواہشمند 60ہزار سے زائد پاکستانی اس سال حج سے محروم ہو گئے ہیں۔ وفاقی وزیر مذہبی امور سردار یوسف نے پرائیویٹ حج سکیم کے تحت آسان حج کی خواہش رکھنے والے 60ہزار سے زائد پاکستانیوں کے حجاز مقدس روانہ نہ ہونے کی تصدیق کر دی ہے جس کی وجہ سے جہاں ایک طرف پرائیویٹ درخواست دہندگان سراپا احتجاج ہیں وہیں دوسری جانب آرگنائزرز کے بھی ’لاکھوں ریال ڈوبنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔‘

خیال رہے کہ پاکستان میں اس سال حج کا مجموعی کوٹہ تقریباً ایک لاکھ اسی ہزار افراد تھا جس میں نصف کو سرکاری حج سکیم اور نصف کو پرائیوٹ حج آرگنائزر نے اس مذہبی فریضے کی ادائیگی کروانا تھی۔لیکن وزارت مذہبی امور کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق اس برس پرائیوٹ حج کے تحت صرف 23 ہزار 620 افراد ہی سعودی عرب جا پائیں گے جبکہ باقی تقریباً 60 ہزار سے زائد افراد حض کیلئے حجاز مقدس نہیں جا سکیں گے۔

تاہم یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں 60ہزار سے زائد افراد کا حج کی سعادت سے محروم کیوں رہے؟ اس صورتحال کی اصل کیا وجہ بنی؟ ایک حج آپریٹر کا کہنا تھا کہ اب تک امید تھی کہ شاید کچھ ہوجائے مگر اب یہ امید ’دم توڑ چکی ہے۔ تاہم بڑی تعداد میں پرائیویٹ حج کے خواہشمند افراد کے مبارک سفر سے محروم رہ جانے کے حوالے سے  ایک پرائیویٹ حج آرگنائزر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے پاس تقریباً 100 افراد کا حج کوٹہ تھا۔انھوں نے ’وزارت مذہبی امور کے اکاؤنٹ میں اس حوالے سے تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار ریال اکتوبر میں ہی جمع کروا دیے تھے۔تاہم جنوری میں یہ پیسے واپس ان کے اکاؤنٹ میں آگئے اور کہا گیا کہ ہم اس رقم سے اپنی ضروری خریداری کر لیں مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ خریداری کی آخری تاریخ 14 فروری ہے۔‘ اور اس کے بعد خریداری ممکن نہیں ہو سکے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ  مختلف مسائل جس میں پاکستان سے ڈالر باہر منتقل کرنے کی پابندی، وقت کی کمی اور دیگر وجوہات کی بنا پر ڈیڈلائن تک یہ خریداری مکمل نہیں ہو سکی۔ جس بنا پر ان کے آدھے سے زیادہ لوگوں کا حج خطرے میں پڑ گیا اور جو خریداریاں نجی طور پر کی ہیں۔ وہ پیسہ بھی واپس ملنے کا کوئی امکان نہیں۔‘

حج آرگنائزر کے مطابق ’خریداری کے لیے بھی زیادہ تر آن لائن طریقہ کار اختیار کر لیا گیا تھا۔ مخصوص پورٹل قائم کیے گئے جہاں پر تمام اہم امور کی انجام دہی کرنا تھی۔ حکومت کی جانب سے حج آرگنائزر کو اس طریقہ کار کے بارے میں بروقت اطلاعات فراہم نہیں کی گئیں اور یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ اس کے لیے 14فروری آخری تاریخ ہے۔‘حج آرگنائزر کے مطابق منیٰ میں حاجیوں کے لیے زون کی خریداری کے لیے اکتوبر سے پورٹل کا آغاز کر دیا گیا تھا جبکہ دیگر تمام امور کی انجام دہی کے لیے 14 فروری کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی تھی جس کے بعد اب وہ پورٹل بند ہو چکا اور تمام شرائط پوری نہیں ہوئیں تو ویزے کا اجرا نہیں کیا گیا۔

حج آرگنائزر کا مزید کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کی پالیسی کے تحت حج آرگنائزر نے ریال میں رقم وزارت مذہبی امور کے اکاؤنٹ میں جمع کروا دی تھی۔ نئی پالیسی کے تحت وزارت مذہبی امور کو یہ رقم حج آرگنائزر کو وقت پر واپس کرنی چاہیے تھا تاکہ حج آرگنائزر تمام ضروری امور انجام دے سکتے مگر عملاً ایسا نہیں ہوا۔’وزارت مذہبی امور کے اکاؤنٹ میں جو رقم اکتوبر میں جمع ہوئی،وزارت کی جانب سے اس رقم کو حج آرگنائزر کو دسمبر، جنوری میں واپس کیا گیا۔‘جس کے بعد وقت انتہائی کم رہ چکا تھا اور اتنے کم وقت میں تمام امور انجام دینا ممکن نہیں تھا ۔ تمام امور کی انجام دہی میں ناکامی پر پرائیویٹ سکیم کے تحت حج کی درخواستین دینے والوں کے ویزوں کا اجراٗ نہیں ہو سکا۔اب صورتحال یہ ہے کہ اگر متوقع حج کے لیے جانے والے کے لیے زون کی خریداری مکمل ہے تو عمارتوں وغیرہ کی ادائیگی نہیں ہوسکی۔ اگر ایک کی عمارت کے پیسے جمع کروا دیے ہیں تو کھانے کے پیسوں کی ادائیگی مکمل نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ سے ویزے جاری نہیں ہوئے اور اب متعلقہ پورٹل بند ہوچکا ہے۔‘

ڈیڈلائن میں مزید توسیع نہ ملنے کی وجہ سے عملا ہمارے لاکھوں ریال ڈوب چکے ہیں، اب حکومتی انکار کے بعد جو لوگ حج پر نہیں جاسکیں گے ان کو ہم لوگ اپنی زمینیں اور جائیدادیں فروخت کر کے بھی ادائیگیاں نہیں کر پائیں گے۔‘

تاہم دوسری جانب جب وفاقی وزیر مذہبی امور سے سوال کیا گیا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ پرائیویٹ حج کی ادائیگی کیوں نہیں کر پائے اس میں اصل قصر وار کون ہے؟ وفاقی وزیر مذہبی امور کا کہنا تھا کہ سرکاری حج کے لیے تو وقت پر تمام تقاضے اور لوازمات پورے کیے گئے تھے تاہم ’پرائیوٹ حج آپریٹرز یہ لوازمات پورے نہیں کر سکے۔‘ جس کی وجہ سے 60ہزار سے زائد پاکستانی ھج سے محروم ہو گئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حج آرگنائزرز کے اس حوالے سے وزارت مذہبی امور پر الزامات بے بنیاد ہیں۔ تاہم اس بارے میں وزیر اعظم شہباز شریف کی قائم کردہ تحقیقاتی کمیٹی کام کر رہی ہے اور اس کی رپورٹ کی روشنی میں کارروائی آگے بڑھائی جائے گی اور ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔

Back to top button