ایران نے جوابی حملوں میں اسرائیل کو تباہ کرنےکامنصوبہ بنالیا

ایران نے نیتن یاہو کو سبق سکھانے کیلئے اسرائیل کو جدید ترین ڈرونز اور ہائپر سونک میزائلز کے ذریعے نشانہ بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جس کے بعد اسرائیل کا مکمل طور پر ٹھکنا یقینی ہو گیا ہے۔دفاعی ماہرین کے مطابق اسرائیلی جارحیت کے جواب میں تہران کی نئی ڈیٹرنس پالیسی نے اسرائیل کا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات، اقتصادی پروجیکٹس عوامی مراکز اور رہائش گاہوں کونشانہ بنانے کے جواب میں تہران نے بھی اسی طرز کا دگنا رد عمل دینا شروع کر دیا ہے۔
عالمی مبصرین کے مطابق اگر ایران نے اسرائیل پر ہائپر سونک میزائل حملے جاری رکھے تو اسرائیلی معاشرہ دو ہفتے کے اندرہی زمین بوس ہو جائے گا۔ تاہم اگر امریکہ اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران پر حملے شروع کر دیتا ہے تو ایران اسرائیل جنگ طویل ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کو مزید بڑی تباہی سے بچانے کیلئے روسی صدر پیوٹن سے ثالثی کرنے کیلئے ترلے شروع کر دئیے ہیں۔تاہم ایران نے اپنے حملے مزید کئی روز تک جاری رکھنے کا عندیہ دے دیا ہے۔
دفاعی ماہرین کے مطابق ایرانی حملوں سے اسرائیل کو تاریخ میں پہلی بار وسیع پیمانے میں تباہی کا سامنا ہے۔ گزشتہ روز بھی اسرائیل کیلئے خاصا بھیانک رہا، عبرانی میڈیا کے مطابق ایرانی میزائل حملے اس قدر طاقتور تھے کہ آہنی دیواروں کی بنی متعدد پناہ گا ہیں ایک لمحے میں مٹی کا ڈھیر بن گئیں۔ اسرائیلی میڈیا نے تصدیق کی ہے کہ ایرانی میزائلوں نے وسطی اسرائیل کے علاقے میں کئی پناہ گاہوں کو تباہ کر دیا جن میں موجود سینکڑوں افراد اندردب چکے ہیں ۔ اخباری رپورٹ کے مطابق اسرائیلی پناہ گا ہیں ایرانی میزائلوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ذرائع کے مطابق اسرائیل کوسبق سکھانے کیلئے ایران نے جدید میزائلوں کا استعمال کیا، جن میں عمادہ، قادر اور خیبر شکن میزائل شامل ہیں۔
دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران کی طرف سے استعمال کئے جانے والے ہائپر سونک خیبر شکن میزائل کو انتہائی تیز رفتار ہونے کی وجہ سے اسرائیل کا فضائی دفاعی نظام روکنے میں ناکام رہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے که ایرانی حملے صرف فوجی اہداف تک محدود نہیں تھے، بلکہ اس میں اسرائیل کے اندر اہم اقتصادی اور اسٹریٹجک تنصیبات کو مکمل طور پر تباہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ ادھر پاسداران انقلاب فورسز کے ترجمان کے مطابق اس بار تہران نے اسرائیل پر اپنی نوعیت کا سب سے بڑا حملہ کر دیا ہے۔ ایرانی میزائل کارروائیوں نے صہیونی ادارے کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو نشانہ بنایا ہے۔ حالیہ ایرانی آپریشن میں جدید طریقے ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور جدید آلات کا استعمال کیا گیا۔ ایرانی میزائلوں نے امریکی حمایت اور جدید دفاعی ٹیکنالوجی کے باوجود اپنے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا ہے۔ دوسری جانب موجودہ صورت حال کے حوالے سے رائٹرز نے ایک باخبر اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران نے ثالثوں کو مطلع کر دیا ہے کہ وہ اسرائیلی حملے کے دوران جنگ بندی پر بات چیت کے لیے تیار نہیں ہے۔ ایران اس وقت تک سنجیدہ مذاکرات نہیں کرے گا جب تک تہران، اسرائیلی حملوں کا جواب مکمل نہیں کر لیتا۔ اس حوالے سے ایک ایرانی سیکورٹی اہلکار کا کہنا ہے کہ ایران خود کو ایک طویل جنگ کے لیے تیار کر رہا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے شروع کی گئی محاذ آرائی ایران کے ہاتھوں میں ختم ہوگی جس سے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکمرانی کا خاتمہ ہو جائے گا۔
مبصرین کے بقول اسرائیلی ریاست کا حجم ایرانی میزائل ٹیکنالوجی سٹم کے سامنے رائی کے دانے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس حوالے سے عبرانی اخبار ٹائمز آف اسرائیل نے لکھا ہے کہ سیکورٹی کا بینہ کے اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے اگر ایرانی میزائل حملوں کا سلسلہ مزید کئی دنوں تک جاری رہا تو اسرائیل میں اموات 800 سے 4000 تک جاسکتی ہیں۔ دوسری جانب ایک معتبر امریکی ویب سائٹ نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل نے واشنگٹن کو ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای کے قتل کے امکان سے آگاہ کیا ہے ۔ تا ہم امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیل کو اس منصوبے سے پیچھے ہٹنےکی ہدایات دے دی ہیں۔ امریکی حکام کے مطابق خامنہ ای کو قتل کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔کیونکہ ایران نے اپنے شہید قائدین کی جگہ لینے والے جانشینوں کی پوری کھیپ تیار کر رکھی ہے۔تاہم اس صورت میں مشرق وسطی میں امریکی فوجی اڈے غیر محفوظ ہو جائیں گے
دوسری جانب روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے ٹرمپ انتظامیہ سے باضابطہ طور پر ایران کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کی درخواست کر دی ہے تاکہ زیر زمین موجود ایرانی جوہری تنصیبات کی تباہی کو یقینی بنایا جا سکےکیونکہ یہ تباہی امریکی ٹی ٹو بمبار طیارے کے علاوہ ممکن نہیں۔ تاہم امریکی ادارے کی رپورٹ میں اشارہ دیا گیا ہے کہ ایران پر امریکی و اسرائیلی مشتر کہ حملہ کرنے کی صورت میں ایران کی مدد کیلئے پاکستان، روس اور چین جیسے ایٹمی قوت رکھنے والے ممالک اہم کھلاڑی کے طور پر سامنے آسکتے ہیں۔