کیا مذاکرات کے نام پر عمران کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جا رہا ہے ؟

فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مذاکرات کی درخواستیں مسلسل مسترد ہونے کے بعد اب عمران خان ملٹری کورٹ میں گھسیٹے جانے کے ڈر سے حکومت کے ساتھ مذاکرات پر تیار تو ہو چکے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ کپتان کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے اور بات چیت شروع کرنے کی بجائے تاخیری حربے اختیار کیے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب حکومتی ذرائع کا موقف ہے کہ اگر بانی پی ٹی آئی واقعی مذاکرات کے لیے تیار ہیں تو کھل کر اس کا اعلان کریں تاکہ بات چیت کا آغاز کیا جا سکے۔

باخبر حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف سے بالواسطہ بات چیت کیلئے نون لیگ محمود خان اچکزئی سے رابطے میں ہے لیکن حکومتی سطح پر س وقت ہی مذاکرات شروع ہوں گے جب خان صاحب اس حوالے سے کوئی واضح اعلان کریں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نون لیگی رہنما اور وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللّٰہ کو پارٹی قیادت نے محمود اچکزئی سے بات کرنے کی ذمہ داری دی ہے۔ تاہم، نون لیگ کا اصرار ہے کہ پی ٹی آئی سے اس کے اور اس کی اتحادی جماعتوں کے مذاکرات براہِ راست ہونے چاہئیں کیونکہ بالواسطہ بات چیت فضول مشق ہوگی۔ حکومتی موقف کے مطابق اگر عمران خان کو لگتا ہے کہ اس کے حامی اور ووٹرز پی ٹی آئی کے نون لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے مذاکرات کی حمایت نہیں کریں تو ایسی صورت میں اچکزئی کے زریعے پس پردہ مذاکرات بھی کیے جا سکتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے اچکزئی کو کہا گیا ہے کہ وہ براہ راست مذاکرات کیلئے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت سے مشاورت کریں جس کیلئے عمران خان کو ایک کمیٹی نامزد کرنا چاہئے جو پس پردہ بات چیت کر سکے۔

پی ٹی آئی کا مذاکرات کےلیے حکومتی کمیٹی کی تشکیل کا خیرمقدم

یاد رہے کہ اس سے پہلے پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین اور غیر فعال اپوزیشن کے اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود اچکزئی کو عمران خان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کا مینڈیٹ دیا تھا تاکہ ملک میں ’’سیاسی استحکام‘‘ لایا جا سکے، اور پارٹی کے قید کارکنوں کی رہائی کو یقینی بنایا جا سکے۔

تاہم حکومتی حلقوں کی جانب سے اس کا بنیادی مقصد عمران کی رہائی اور انہیں سزا سے بچانا قرار دیا جا رہا ہے۔ بیرسٹر گوہر علی خان نے چند ماہ قبل میڈیا کو بتایا تھا کہ انہوں نے پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کو باور کرایا تھا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ضروری ہے جس کے بعد عمران نے اس کی منظوری دے دی تھی۔ تاہم، یہ کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی وفاقی حکومت میں شامل تین جماعتوں یعنی نون لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے براہ راست مذاکرات نہیں کرے گی۔ اس موقف کے بعد مذاکرات لٹ گئے تھے لیکن نون لیگ کا اب بھی یہی موقف ہے کہ چونکہ وفاق میں ایک اتحادی حکومت موجود ہے لہذا مذاکرات تمام اتحادی جماعتوں کے ساتھ ہونا لازمی ہیں۔

ماضی قریب میں پی ٹی آئی کی جانب سے محمود خان اچکزئی کو حکومتی جماعتوں سے بات چیت کا مینڈیٹ دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ ادکے بعد عمران خان نے ایک سے زائد مرتبہ میڈیا سے بات چیت میں کہا تھا کہ محمود اچکزئی ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے بات کریں گے۔ تاہم ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان یا پی ٹی آئی سے بات کی خواہش مستر کر دی تھی۔  ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک پریس کانفرنس میں مذاکرات کے لیے عمران خان کیلئے 9؍ مئی کے حملوں پر عوامی معافی مانگنے کی شرط رکھی تھی۔ فوجی ترجمان نے مزید کہا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات ہونے چاہئیں۔ دوسری جانب عمران خان نے 9 مئی کے واقعات پر معافی مانگنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ معافی ان سے مانگی جائے چونکہ 9 مئی کے حملوں میں وہ نہیں بلکہ الزام لگانے والے ملوث ہیں۔

Back to top button