کیا عمران خان ہمیشہ کے لیے سیاست سے مائنس ہونے جا رہے ہیں؟

عمران خان کی گرفتاری کے بعد سے گزشتہ دو برس کے دوران واضح طور پر کئی گروپوں میں تقسیم ہو جانے والی تحریک انصاف اب اپنے بانی عمران خان کے سیاست سے مائنس ہو جانے کے خطرے سے دو چار ہو گئی ہے جسکی تصدیق کپتان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے بھی کر دی ہے۔
گزشتہ دنوں اڈیالہ جیل کے باہر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے تحریک انصاف کی موجودہ کرتا دھرتا علیمہ خان کا کہنا تھا کہ ’میرا خیال ہے کہ اب عمران خان مائنس ہی ہو گئے ہیں۔ ایک اور صحافی نے انھیں بتایا کہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں صوبائی بجٹ عمران خان کی اجازت کے بغیر ہی منظور کر لیا گیا اور اراکین اسمبلی کہتے ہیں کہ وہ علی امین گنڈاپور کو نہ نہیں کہہ سکتے۔ اس بات کا جواب دیتے ہوئے علیمہ خان نے کہا کہ ’اگر بوجھ نہیں اُٹھا سکتے تو گھر چلے جائیں۔‘ علیمہ کی اس گفتگو کے بعد علی امین گنڈاپور کا بھی ایک ویڈیو پیغام منظرِ عام پر آیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان تب ہی مائنس ہو گا جب ہم زندہ نہیں رہیں گے۔‘
یہ ایسے بیانات ہیں جن پر اب کھل کر بحث کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ شاید ملک کی سیاست میں کوئی بڑی تبدیلی آ سکتی ہے اور شاید عمران خان کے ملکی سیاست سے حتمی طور پر مائنس ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی کے اندر اختلافات 2024 کے انتخابات کے دوران ہی شروع ہو گے تھے لیکن اس بارے میں کوئی کھل کر بات نہیں کرتا تھا۔ تاہم اب پی ٹی آئی میں مرکزی سطح اور خیبر پختو نخوا میں دھڑے بندی اور تنظیمی سطح پر بار بار ایک دوسرے پر تنقید پارٹی میں مزید اختلافات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران حکومت کے خاتمے کے بعد جس طرح پی ٹی آئی پر کریک ڈاؤن کیا گیا اور اہم رہنماؤں کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اس کے اثرات اب نظر آنا شروع ہوئے ہیں۔ دوسری جانب جماعت کے قائدین اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس وقت پارٹی کے اندر اگرچہ مایوسی ہے لیکن جس دن عمران میڈیا کے سامنے سامنے آگئے اس دن جماعت ایک بار پھر اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے گی۔
عمران خان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ انتخابات میں پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ ووٹ ملے جس کی وجہ صرف عمران ہیں۔ پچھلے ہفتے عمران سے ملاقات کے بعد اڈیالہ جیل کے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے علیمہ خان نے کہا کہ جب خواتین ملاقات کے دن جیل میں آ کر بیٹھ سکتی ہیں تو پھر ان کے نام پر ووٹ لینے والے ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ ایک اور سوال پر انھوں نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ عمران خان مائنس ہی ہو گئے ہیں۔‘
تحریک انصاف کے مرکزی قائدین سمجھتے ہیں کہ عمران خان ایک برس سے زیادہ سے اڈیالہ جیل میں ہیں لہٰذا کے مخالفین ہر اس موقع کا فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں جس سے پی ٹی آئی کی مقبولیت میں کمی لائی جا سکے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ایک مقبول جماعت ہے جس میں مائنس عمران خان کی باتیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں۔ اب ایک مرتبہ پھر مائنس عمران خان کا بیانیہ اچھالا جا رہا ہے، اب جب عمران خان جیل میں ہیں اور ان سے رابطے محدود ہیں تو ایسے میں ان کی مخالف جماعتیں خاص طور پر مسلم لیگ نواز اور اسٹیبلشمنٹ کوئی ایسا موقع جانے نہیں دیتے جس سے اس جماعت کی مقبولیت میں کمی لائی جا سکے۔ اس حوالے سے علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ ’مائنس عمران خان‘ کبھی نہیں ہو سکتا کیونکہ تحریک انصاف کا مطلب ہی عمران خان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف عمران خان کے نام پر قائم ہے اور جس روز عمران خان جیل سے باہر آ گئے اس روز ملک میں انقلاب برپا ہو جائے گا۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شاید اسی وجہ سے عمران اب کبھی جیل سے باہر نہیں آ پائیں گے۔