کیا عمران انا کی وجہ سے تخت سے تختے کی طرف جا رہے ہیں؟

 

 

 

بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی ہوں یا پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان، انا ان کی سب سے خوفناک جبلت ہے۔ انسان ہر جبلت سے لڑ سکتا ہے اور اسے ٹھنڈا بھی کر سکتا ہے لیکن انا اس پر یوں حاوی ہو جاتی ہے کہ وہ اس کیلئے مرنے مارنے تک تیار ہو جاتا ہے۔ یہ انا ہی تو ہے جو مودی اور عمران جیسے لوگوں کو کبھی تخت تو کبھی تختے پر لے جاتی ہے۔

 

معروف لکھاری اور تجزیہ کا رؤف کلاسرا اپنے تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر انسان نے کبھی کسی چیز پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا تو وہ اس کی انا ہے، چاہے وہ ایک فرد کی انا ہو یا پھر ملکوں یا قوموں کی۔ اس جبلت پر یقینی طور پر کسی کا کنٹرول نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ وقت اور عمر کے ساتھ انسان کچھ معاملات کو نظر انداز کرنا سیکھ جاتا ہے لیکن اس کیلئے لمبا تجربہ درکار ہے۔ انا کو دبانے کے لیے انسان کو خود کو مارنا پڑتا ہے۔ ورنہ اس کھیل میں تو لوگ جان لینے اور جان دینے سے بھی باز نہیں آتے۔

 

سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ اگر انا کسی سیاستدان کے آڑے آ جائے تو وہ یا تو تخت پر پہنچ جاتا ہے یا تختے پر لٹک جاتا ہے۔ اگر یوکرین کے صدر زیلنسکی سے شروع کریں تو موصوف اب کہتے ہیں کہ روس اگر جنگ بندی کر دے تو وہ صدارت چھوڑنے کو تیار ہیں۔ روس کہہ رہا ہے کہ آدھا یوکرین ہمیں دے دو جس پر ہمارا قبضہ ہے۔ زیلنسکی اس کے لیے بھی تیار ہے۔ یوکرین کے ہزاروں فوجی مارے گئے۔ پورا ملک تباہ ہو گیا‘ صرف زیلنسکی کی اس انا کے چکر میں کہ ہم روس کے غلام تھوڑی ہیں۔ یوکرینی صدر کو سب نے سمجھایا کہ نیٹو کا حصہ بننے کی ضد چھوڑ دو لیکن وہ نہ مانا۔ وہ بانس پر چڑھ گیا اور آج تختے پر لٹک رہا ہے، اب اس کی سب انا اور اکڑ نکل گئی ہے۔

 

کلاسرا کہتے ییں کہ آپ بھارتی وزیراعظم مودی کو دیکھ لیں۔ اچھا خاصا ملک چل رہا تھا لیکن اسے لگا کہ نہیں اپنے فالورز کو کوئی بڑا کام کر کے دکھاتے ہیں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ انہوں نے کتنا بڑا لیڈر چنا ہے۔ پاپولسٹ لیڈر کا یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت کوئی نہ کوئی واردات کرنے کا سوچتا رہتا ہے تاکہ ووٹ بنتے رہیں اور فالورز بڑھتے رہیں۔ زیلنسکی یوکرین کو جنگ میں لے گیا تو مودی نے بھی یہی کام کیا۔ اس نے پاکستان کے ساتھ جنگ چھیڑی لیکن نتیجہ ایسا نکلا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ پاکستان نے انڈیا کے سات جدید ترین جنگی جہاز مار گرائے۔ اچانک دنیا کو احساس ہوا کہ پاکستان تو اتنے بڑے ملک کو ٹکڑ دے سکتا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی‘ بھارت کو پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کیلئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مدد لینا پڑی۔

 

رؤف کلاسرا کے بقول جب امریکی صدر نے اس جنگ بندی کا کریڈٹ لینے کے لیے ٹویٹ کی تو مودی کی انا آڑے آ گئی۔ اس نے صدر ٹرمپ کو جنگ بندی کا کریڈٹ دینے سے انکار کر دیا۔ اس کے برعکس پاکستان نے نہ صرف ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا بلکہ اس کے کردار کو سراہتے ہوئے نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان بھی مودی والی انا کا روٹ لے سکتا تھا لیکن کیا وہ ایک سیانا فیصلہ ہوتا؟ یا تو ٹرمپ نے پاکستان اور انڈیا کو جنگ بندی کیلئے فون کالز نہ کی ہوتیں تو بھی بندہ کہتا کہ کیوں بھائی، آپ کس چیز کا کریڈٹ مانگ رہے ہو۔ مودی کی اکڑ نے انڈیا کو اس صورتحال میں لاکھڑا کیا جہاں پچاس سال پہلے اندراگاندھی اور صدر نکسن کھڑے تھے۔ انڈیا اور امریکہ کے درمیان مضبوط تعلقات کیلئے پچاس سال تک کی گئی محنت ایک لفظ کی بھینٹ چڑھ گئی اور وہ تھا شکریہ۔

 

مودی کی جانب سے صدر ٹرمپ کے ٹویٹ پر "شکریہ مسٹر ٹرمپ” لکھنے میں کتنا وقت لگنا تھا؟ جیسے وزیراعظم شہباز شریف نے شکریہ لکھا‘ لیکن مودی کی انا آڑے آ گئی اور وہ یہی ایک لفظ نہ لکھ سکا۔ نتیجہ سامنے ہے‘ پوری دنیا میں مودی کو سبکی کا سامنا ہے۔ ٹرمپ نے کوئی تیس دفعہ کہا کہ پاکستان نے بھارت کے چھ جہاز گرائے گئے اور میں نے جنگ رکوائی۔ ویسے بھی ٹرمپ روز صبح اٹھ کر یہ سوچتا ہے کہ اج میں نے مودی کو کیسے شرمندہ کرنا ہے۔

صدر ٹرمپ پاکستانی فیلڈ مارشل سے کب تک دوستی نبھائیں گے؟

رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ آپ پاکستان میں عمران خان کی مثال دیکھ لیں۔ فوجی قیادت نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں کے لیے معافی مانگیں۔ لیکن خان کی انا آڑے آ گئی کہ میں کیوں معافی مانگوں۔ خان کو لگا کہ اگر اس نے سوری کہہ دیا تو اسکا ووٹ بینک متاثر ہو گا اور لوگ سمجھیں گے کہ وہ فوج سے ڈر گیا۔ حالانکہ عمران یہ کہہ سکتے تھے کہ جس دن واقعہ ہوا میں کسٹڈی میں تھا اور جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن بعض لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ وہ بھگوان ہیں اور لفظ تھینک یو اور سوری ان کیلئے نہیں بنے۔ صدر ٹرمپ نے مودی سے صرف شکریہ کہلوانا تھا لیکن مودی نے بھارت کے مفادات کو داؤ پر لگا کر شکریہ ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ عمران بھی ایک سوری کر کے پارٹی اور خود کو ریلیف دلوا سکتے تھے لیکن مودی تھینک یو نہ کہہ سکے اور عمران سے سوری نہیں بولا گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ دونوں کو اپنی جھوٹی انا کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا ہے اور دونوں تخت سے تختے کا سفر طے کرتے نظر آتے ہیں۔

Back to top button