کیا بجلی کی قیمت میں 20 روپے فی یونٹ کمی ممکن ہے؟
مہنگی بجلی سے ستائے پاکستانی عوام کیلئے ریلیف کی امید پیدا ہوتی نظر آتی ہے۔ ہر ماہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دینے والی نیپرا نے اب بجلی کی قیمتوں میں 20 روپے فی یونٹ کمی کا فارمولا تیار کر لیا ہے۔نیپرا نے سفارشات پر مبنی دستاویز حکومت کے حوالے کردیں جس میں کہا گیا ہے کہ بیلنس آف ٹیرف سے بجلی کی قیمتوں کو کم کیا جاسکتا ہے ، فی یونٹ کپیسٹی ادائیگی، سرچارجز پر نظر ثانی سے نرخ کم ہو سکتے ہیں۔
نیپرا دستاویز کے مطابق آپریشنل خامیوں کو بہتر کر کے بھی بجلی کی قیمتوں میں کمی لائی جاسکتی ہے، نیپرا رپورٹ کے مطابق اس وقت اوسط بجلی کی قیمت 45 روپے 6 پیسے فی یونٹ ہے، 45 روپے 6 پیسے میں سے 17 روپے 1 پیسے فی یونٹ کپیسٹی چارجز شامل ہیں۔ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ بجلی کے ٹیرف میں 15 روپے 28 پیسے فی یونٹ ٹیکس اور سرچارج عائد ہیں جبکہ بجلی تقسیم کار کمپنیاں صارفین سے 3 روپے 10 پیسے ڈسٹری بیوشن مارجن لیتی ہیں۔نیپرا حکام کے مطابق ایک پیسہ فی یونٹ مرمت، آمدن کے حصول اور آئندہ سال کی ایڈجسٹمنٹ کے نام سے وصول کیا جاتا ہے، ایک روپے 37 پیسے فی یونٹ ٹرانسمیشن چارجز کی مد میں لیے جاتے ہیں۔
نیپرا رپورٹ کے مطابق بجلی کی خالص اوسط پیداواری قیمت 7 روپے 62 پیسے فی یونٹ ہے۔حکومت کو جمع کروائی گئی دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 7 روپے 52 پیسے کے سرچارجز اور 67 پیسے ایڈجسٹمنٹ ختم ہونے سے بجلی 25 روپے 20 پیسے فی یونٹ بنتی ہے، اگر اسے ختم کر دیا جائے تو 45 روپے 6 پیسے والا بجلی کا یونٹ 20 روپے 4 پیسے پر آ جائے گا۔
دوسری جانب مبصرین کے مطابق نیپرا کی جانب سے 20 روپے یونٹ بجلی سستی کرنے کا فارمولا تو سامنے آ گیا ہے تاہم عوام کو فائدہ تو اسی وقت ہو گا جب اس فارمولے پر عمل کیا جائے گا۔ ماہرین کے بقول عوام کیلئے سال 2024 توانائی قیمتوں کے حوالے سے زیادہ خوشگوار نہیں رہا، صارفین کو اگرچہ بجلی کی قیمتوں میں کچھ ریلیف ملا، لیکن زیادہ تر بلند قیمت کا ہی سامنا کرنا پڑا.وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت بجلی کی قیمتیں کم کرنے کے وعدے پر اقتدار میں آئی، لیکن اپنے تمام تر دعووں کے باجود عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام رہی، ابھی بھی بجلی قیمت صارفین کی استطاعت سے باہر ہے.
پاور ڈسٹربیوشن کمپنیاں ( ڈسکوز) بھاری نقصان کا شکار ہیں، جس سے گردشی قرضوں میں اضافہ ہورہا ہے، جو صارفین کو بھگتنا پڑ رہا ہے، آئی پی پیز کے ساتھ ناقص معاہدوں نے عوام پر مزید بوجھ ڈال رکھا ہے۔
بلند و بانگ حکومتی دعووں کے باجود بجلی کی قیمت 44.04 روپے فی یونٹ صارفین کی استطاعت سے بہت زیادہ ہے، جبکہ حکومتی ٹیکسز شامل کرکے بجلی کی قیمت 64 روپے پر پہنچ جاتی ہے، حکومت بجلی بلوں پر 50 فیصد سے زیادہ ٹیکس وصول کر رہی ہے.گردشی قرضے بڑھ کر 2.636 ہزار ٹریلین روپے تک پہنچ گئے ہیں، جو کہ ملکی جی ڈی پی کا 2.5 فیصد ہیں، یہ گردشی قرضوں کو 2.31 ہزار ارب روپے تک محدود رکھنے کے حکومتی ہدف سے کہیں زیادہ ہے
ادھر بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافوں کے بعد صارفین تیزی سے سولر پر شفٹ ہورہے ہیں، اعداد و شمار کے مطابق 7 ہزار میگاواٹس سے زیادہ بجلی سولر پینلز کے ذریعے سسٹم میں شامل ہوچکی ہے.حکام کے مطابق ماہانہ 80 میگاواٹ بجلی نیٹ میٹرنگ کے ذریعے نیشنل گرڈ میں شامل ہورہی ہے، جبکہ زرعی شعبہ مکمل طور پر سولر پر شفٹ ہوچکا ہے۔
ماہرین کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی ایک وجہ کپیسٹی پیمنٹس بھی ہیں۔ تاہم حکومت کیسیپٹی پیمنٹس کے خاتمے کیلیے آئی پی پیز کو راضی کرنے پر کوشاں ہیں، انرجی لاگت میں کیپیسٹی پیمنٹس 70 فیصد ہے، بجلی کی پیداواری لاگت اس وقت 9.25 روپے فی یونٹ ہے، جبکہ صارفین 18 روپے فی یونٹ کیپیسیٹی پیمنٹس کی صورت میں ادا کر رہے ہیں.پاور پلانٹس کو بغیر بجلی پیدا کیے سالانہ 2.5 ہزار ارب روپے کیپیسیٹی پیمنٹس کی مد میں ادا کیے جارہے ہیں، حکومت اب تک 5 آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کو ختم کرچکی ہے، جبکہ مزید 18 کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے۔