کیا جنگ کا اداریہ ختم ہونے پر کی جانے والی تنقید جائز ہے؟

پاکستان کے سب سے بڑے اردو اخبار روزنامہ جنگ کی جانب سے اپنا اداریہ ختم کرنے کے فیصلے پر تنقید کرنے والوں صحافیوں نے خود زندگی بھر کوئی ایک بھی اخباری اداریہ نہیں پڑھا ہو گا اور انہیں شاید یہ بھی پتہ نہ ہو کہ اداریے کا مقصد کیا ہوتا ہے۔
معروف لکھاری اور کئی کتابوں کے مصنف محمد حنیف بی بی سی اردو کے لیے اپنی تحریر میں سوال کرتے ہیں کہ کیا آپ کے ساتھ بھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی مشہور بزرگ کی وفات کی خبر سُن کر افسوس سے پہلے یہ خیال آتا ہے کہ کیا وہ ابھی تک زندہ تھے، میرا تو خیال تھا کہ موصوف کب کے نکل لیے ہیں۔ حنیف کہتے ہیں کہ روزنامہ جنگ نے ادارتی صفحے پر اداریہ چھاپنا بند کیا تو کچھ صحافی بھائیوں نے سوشل میڈیا پر ایک ’عہد کے خاتمے‘ کا رونا رویا۔ انہوں نے ڈوبتی ہوئی صحافت پر نوحہ پڑھا۔ انکا کہنا تھا کہ اداریے کے بغیر کوئی اخبار کیسے چھپ سکتا ہے۔ اس رونے دھونے کے ساتھ میری عمر کے ہر صحافی کا تازیانہ یہ ہے کہ صحافت تو ہوتی تھی ہمارے زمانے میں، اب تو صرف فیک نیوز کا دور چل رہا ہے۔
محمد حنیف بتاتے ہیں کہ کیبل ٹی وی، سمارٹ فون اور سوشل میڈیا سے پہلے ہم جیسے نیم پڑھے لکھے لوگوں کے لیے اخبار خبروں کا ہی نہیں بلکہ تفریح کا ذریعہ بھی ہوتا تھا۔ حجام کی دکان پر، چائے کے کھوکھے پر یا گاؤں کی چوپال میں ایک ہی اخبار کو کئی درجن لوگ پڑھتے تھے اور کچھ تو ایسے پڑھتے تھے جیسے ہم آج کل سوشل میڈیا پر سکرولنگ کرتے ہیں۔ دن ختم ہو جاتا ہے لیکن سوشل میڈیا پر چلنے والی ریلیں ختم نہیں ہوتیں۔ تب گاؤں کی نہ ختم ہونے والی بور دوپہر میں لوگ اخبار پڑھتے نہیں تھے، چاٹتے تھے۔ ساری خبریں، پھر خبروں کے بقیے، سارے کالم پڑھنے کے بعد کلاسیفائیڈ صفحے پر ضرورتِ رشتہ، مکان کرائے کے لیے خالی ہے، عمرے کا پیکج اور آج کے سونے کے بھاؤ بھی پڑھ جاتے تھے۔
حنیف کے بقول مجھے نہیں یاد کہ اس زمانے میں بھی کبھی انہوں نے کوئی اداریہ پڑھا ہو۔ وہ تو لکھا ہی اس لیے جاتا تھا کہ کوئی نہ پڑھے۔ ایک صحافی نے جنگ کا اداریہ بند ہونے پر کمنٹ لینے کے لیے فون کیا۔ میں نے عرض کیا صحافت میں کتنے سال ہو گئے جناب کو؟ انھوں نے بتایا کہ 25 سال سے زیادہ ہو گے۔ میں نے پوچھا کبھی جنگ کا اداریہ پڑھا جناب نے؟ انھوں نے کہا نہیں کبھی نہیں۔ لیکن ظاہر ہے اس پر ایک کہانی تو بنتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ اداریہ چھوڑیں، اب تو کاغذ والا اخبار بھی صرف سرکاری دفاتر میں یا پھر ایک خاص عمر کے صحافیوں کے گھروں میں ملے گا۔
اخبار کے بارے میں ہمیشہ کہا گیا ہے اور درست کہا گیا ہے کہ آج کی تازہ خبر جس کاغذ پر چھپی، اگلے دن اس میں گرم گرم پکوڑے بیچے جاتے ہیں۔پچھلے کچھ سالوں میں کبھی تندور سے روٹی یا کسی ریڑھی سے پکوڑے لیے ہیں تو وہ ملتے تو اخبار میں ہی لپٹے ہوئے ہیں، لیکن وہ اخبار مقامی نہیں ہوتا، چینی زبان میں ہوتا ہے۔
محمد حنیف کہتے ہیں کہ دو ملکوں کے درمیان اس سے زیادہ گہری دوستی کیا ہو سکتی ہے کہ ہمارا برادر ملک ہماری دفاعی ضروریات بھی پوری کر رہا ہے اور ہمارے پکوڑوں کی پیکنگ میں بھی مدد کر رہا ہے۔ مجھے ہمیشہ سے حیرت رہی کہ اخبار کے قاری کالم تو بہت شوق سے پڑھتے ہیں، اداریہ کیوں نہیں پڑھتے۔ شاید اس لیے کہ اداریے پر نہ کسی کی تصویر ہوتی ہے نہ کسی کی بائی لائن۔ مقصد شاید یہ ہوتا تھا کہ تین، چار پیروں میں اخباری ادارے کی پالیسی بیان کر دی جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اخبار بین کو پالیسی خبریں اور کالم پڑھ کر ہی سمجھ آ جاتی ہے تو پھر وہ اداریہ کیوں پڑھے؟ ویسے بھی اگر ایک مرتے ہوئے میڈیم میں مسئلہ صرف کچھ سال مارکیٹ میں اور زندہ رہنے کا ہو تو اخبار اپنی ادارتی پالیسی بارے کیا سوچے اور کیوں سوچے۔
محمد حنیف کہتے ہیں کہ میں نے اپنی صحافتی زندگی میں ایک آدھ بار ہی کسی اداریے سے سیاست میں ہلچل ہوتے دیکھی ہے۔ کراچی کے ایک انگریزی اخبار نے پرانی ایم کیو ایم والے الطاف حسین کو دبے لفظوں میں فاشسٹ کہتے ہوئے اخبار کے پہلے صفحے پر اداریہ چھاپ دیا تھا۔ تمام میڈیا کے سیٹھوں کو ساری رات الطاف بھائی کا لیکچر سننا پڑا اور صبح ناشتے پر معافی کے بعد ہی انہیں اخبارات چھاپنے کی اجازت ملی۔
حنیف کہتے ہیں کہ جنگ کا اداریہ لکھنے پر قلم کے نامعلوم مزدور مقرر تھے۔ اب اگر اداریہ ختم ہو جانے کے بعد ان کی نوکری گئی ہے تو انہیں اس کا افسوس ہے۔ لیکن مجھے اداریہ ختم ہونے کا کوئی افسوس نہیں۔ حنیف کہتے ہیں کہ میں نے جنگ کا آخری اداریہ پڑھ لیا ہے۔ ایک سیرت النبی کے بارے میں ہے اور دوسرا پاک چین دوستی کے بارے میں۔ یقین جانیے ان میں ایسی کوئی بات نہیں جو آپ خود نہیں لکھ سکتے یا بہتر نہیں لکھ سکتے۔ لہذا جنگ والوں کو اداریہ ختم کرنے پر تنگ نہ کریں، اپنا اداریہ خود لکھ لیا کریں۔
