اسرائیلی وزیراعظم غزہ میں جنگ بندی کیلئےمذاکرات پرآمادہ

اسرائیلی وزیرِاعظم بن یامین نیتن یاہو نے غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق بات چیت شروع کرنے کے لیے آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ یہ پیشرفت حماس کی جانب سے فوری مذاکرات کی تجویز کے بعد سامنے آئی ہے۔
تاہم نیتن یاہو نے واضح کیا ہے کہ جنگ بندی کے مجوزہ مسودے میں حماس کی جانب سے کی گئی ترامیم اسرائیل کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔ وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ قطر کی جانب سے فراہم کردہ تجاویز اور حماس کی طرف سے کی گئی ترامیم سے اسرائیلی حکومت کو گزشتہ شب آگاہ کیا گیا، تاہم ان میں متعدد نکات ایسے ہیں جن پر اسرائیل کو تحفظات ہیں۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ حالات کا بغور جائزہ لینے کے بعد نیتن یاہو نے قطری فریق کی دعوت پر مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی ہدایت کی ہے، تاکہ یرغمالیوں کی واپسی سے متعلق انہی شرائط پر گفتگو آگے بڑھ سکے جن پر اسرائیل پہلے ہی اصولی رضامند ہو چکا ہے۔
امریکا اور قطر کی کوششوں سے یہ مذاکرات ایسے وقت متوقع ہیں جب اسرائیلی قیادت نے طویل عرصے بعد پہلی بار کسی حد تک لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اب تک نیتن یاہو پر دباؤ صرف اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ اور بعض یورپی ممالک کی طرف سے تھا، تاہم اس بار دباؤ کا اصل مرکز براہِ راست امریکا ہے، جس کا اثر نیتن یاہو کے حالیہ فیصلوں سے واضح ہے۔
ذرائع کے مطابق نیتن یاہو آئندہ رات سیکیورٹی مشیروں اور کابینہ کے ساتھ مزید مشاورت کے بعد واشنگٹن روانہ ہوں گے، جہاں وہ امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ممکنہ جنگ بندی پر تبادلہ خیال کریں گے۔
امریکی حکام کے مطابق اسرائیل نے ابتدائی طور پر 60 روزہ جنگ بندی کی تجویز پر اصولی رضامندی ظاہر کی ہے، جس پر فوری بات چیت متوقع ہے۔