لاہور فضائی آلودگی کی عالمی درجہ بندی میں پہلے نمبر پر،سموگ خطرناک سطح پر

پنجاب کے مختلف شہروں میں فضائی آلودگی آج بھی خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے، جبکہ لاہور عالمی سطح پر سب سے زیادہ آلودہ شہر بن چکا ہے۔
عالمی ادارے آئی کیو ایئر کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق لاہور کا اے کیو آئی 378 ریکارڈ کیا گیا، جس کے ساتھ وہ دنیا کے سب سے آلودہ شہر کی فہرست میں بدستور پہلے نمبر پر ہے۔ دہلی 288 اور تاشقند 175 اے کیو آئی کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔
پنجاب حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق شیخوپورہ صوبے کا سب سے زیادہ آلودہ شہر قرار پایا جہاں اے کیو آئی 500 کی خطرناک حد تک پہنچ گیا۔ لاہور 372 کے ساتھ دوسرے، گوجرانوالہ 294 پر تیسرے، فیصل آباد 255 پر چوتھے اور ملتان 194 اے کیو آئی کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہیں۔
دیگر متاثرہ شہروں میں سرگودھا (186)، ڈیرہ غازی خان (179)، بہاولپور (159)، سیالکوٹ (156) اور راولپنڈی (124) شامل ہیں۔
لاہور کے مختلف علاقوں میں بھی آلودگی کی شدت مختلف سطحوں پر برقرار ہے۔ شاہدرہ میں اے کیو آئی 500، ملتان روڈ پر 395، پنجاب یونیورسٹی کے اطراف میں 393، سفاری پارک میں 367، کہا نو میں 346، برکی روڈ پر 340، جی ٹی روڈ پر 337 جبکہ ڈی ایچ اے فیز 6 میں 320 ریکارڈ کیا گیا — جو عالمی ادارۂ صحت کے مقرر کردہ معیار سے کئی گنا زیادہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آلودگی میں اضافہ بنیادی طور پر بھارتی پنجاب سے آنے والی آلودہ ہواؤں اور پرالی جلانے کے بڑھتے واقعات کا نتیجہ ہے۔ رواں سال بھارتی پنجاب میں فصلوں کی باقیات جلانے کے واقعات میں 15 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جس کے اثرات لاہور، قصور، شیخوپورہ اور گوجرانوالہ سمیت وسطی پنجاب میں نمایاں ہیں۔
محکمہ موسمیات کے مطابق رواں ہفتے ہوا کی رفتار میں کمی (3 تا 5 میل فی گھنٹہ) اور درجہ حرارت میں گراوٹ کے باعث فضا میں آلودہ ذرات کے بکھرنے کی صلاحیت کم ہو گئی ہے۔ رات اور صبح کے اوقات میں فضائی نمی 95 تا 100 فیصد ہونے سے سموگ زمین کے قریب جمع ہو جاتی ہے، جس سے حدِ نگاہ متاثر ہو رہی ہے۔
دن کے وقت سورج کی حرارت سے آلودگی میں معمولی کمی آتی ہے، مگر شام کے بعد سموگ دوبارہ گہری ہو جاتی ہے۔ محکمہ ماحولیات کے مطابق اس سال ہوا کے کم دباؤ والے زونز، خشک موسم اور سرحد پار آلودگی نے صورتحال مزید بگاڑ دی ہے۔
پنجاب حکومت نے انسدادِ سموگ مہم میں تیزی لانے کا اعلان کیا ہے۔ محکمہ زراعت اور ماحولیات کی ٹیمیں لاہور، ننکانہ، قصور سمیت مختلف اضلاع میں پرالی جلانے والوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک پانچ ہزار سپرسیڈرز کے استعمال سے چار لاکھ ایکڑ رقبہ جلنے سے بچایا گیا ہے۔ حکومت کسانوں کو چھ لاکھ جدید مشینریاں (سپرسیڈرز، ہارویسٹرز، کبوٹا ہارویسٹرز اور بیلرز) فراہم کر رہی ہے تاکہ پرالی کو جلانے کے بجائے چارہ یا توانائی کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔
دیہی علاقوں میں آگاہی مہم بھی جاری ہے، جہاں مساجد میں اعلانات، دیہاتوں میں اجتماعات اور لمبرداروں کے ذریعے کسانوں کو سموگ کے نقصانات سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔
شہری علاقوں میں ضلعی انتظامیہ نے سموگ گنز (فوگ کینن) کے ذریعے زیادہ آلودہ مقامات پر مصنوعی بارش کے چھڑکاؤ کا آغاز کر دیا ہے تاکہ آلودہ ذرات زمین پر بیٹھ جائیں۔
محکمہ ماحولیات کے ترجمان کے مطابق رواں سال انسدادِ سموگ مانیٹرنگ سسٹم پچھلے سال کے مقابلے میں زیادہ مؤثر اور مربوط ہے۔ عوام کو خوفزدہ ہونے کے بجائے حکومت کے ساتھ تعاون کی اپیل کی گئی ہے۔
محکمہ موسمیات نے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ صبح و شام غیر ضروری سفر سے گریز کریں اور حساس افراد لازمی طور پر ماسک کا استعمال کریں۔ ادارے کے مطابق اگلے 48 گھنٹوں میں اگر ہوا کی رفتار میں معمولی اضافہ ہوا تو آلودگی کی شدت میں جزوی کمی متوقع ہے۔
