غلط سیاسی فیصلوں نے عمران کو منہ کے بل کیسے گرایا؟

سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی جانب سے تحریک انصاف کے بچے کھچے 43 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کیے جانے کے بعد اب عمران خان کی اسمبلی میں اپنا لیڈر آف اپوزیشن منتخب کروانے کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے حالانکہ وہ اس مقصد کی خاطر اپنا تھوکا ہوا بھی چاٹنے کو تیار تھے۔ سیاسی تجزیہ کار استعفوں کی منظوری کو عمران خان کی سیاسی حکمت عملی کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دے رہے ہیں کیونکہ 43 اراکین قومی اسمبلی کی پوری کوشش تھی کہ ایسا نہ ہو اور وہ کسی صورت ایوان میں واپس پہنچ جائیں۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ جو کچھ بھی ہوا ہے اس کی ذمہ داری بنیادی طور پر عمران خان پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے پارلیمنٹ کا فورم چھوڑ کر اسمبلیوں سے باہر سڑکوں پر سیاست کرنے کا فیصلہ کیا اور اب منہ کے بل نیچے گرے پڑے ہیں۔ استعفے واپس لینے کی کوشش میں ناکامی نے عمران خان کی درست فیصلہ سازی کی صلاحیت پر بھی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے 43 اراکین قومی اسمبلی اپنے استعفے واپس لینے کی خاطر پچھلے دو روز سے سپیکر راجہ پرویز اشرف کی تلاش میں تھے لیکن وہ ان کے ہاتھ نہیں آئے اور اب استعفوں کی منظوری کا اعلان کر دیا ہے۔  پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کی جانب سے تحریک انصاف کے 43 اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کیے جانے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ راجا ریاض کو بچانے کے لیے اسپیکر کے اقدامات کے نتیجے میں اس وقت 40 فیصد نشستیں خالی ہو چکی ہیں۔ فواد کو جواب دیتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ خان نے کہا ہے کہ سپیکر نے استعفیٰ قبول کرکے عمران خان کی دیرینہ خواہش پوری کی ہے لہذا اب شور مچانے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے تو اپنے استعفوں کی منظوری کیلئے عدالتوں سے بھی رجوع کیا تھا لہذا اب کس بات کا رونا دھونا کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ راجا پرویز اشرف نے استعفے منظور کرکے انہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوا دیا ہے، فواد نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ حالانکہ انکی نظر میں قومی اسمبلی کی اب کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن پھر بھی تحریک انصاف اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتی تھی۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ اس وقت شہباز شریف حکومت 172 لوگوں کی حمایت کھو چکی ہے اور حکومت بچانے کے لیے لوٹوں پر انحصار کر رہی ہے۔ فواد نے کہا کہ راجا ریاض کو بچانے کے لیے سپیکر کے اقدامات کے نتیجے میں اس وقت 40 فیصد نشستیں خالی ہو چکی ہیں، اور ملک انتخابات کے مزید قریب آگیا ہے۔۔پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ اس بحران کا واحد حل قومی انتخابات ہیں، حکومت کتنا عرصہ عوام سے کترائے گی، آخر فیصلہ لوگوں نے کرنا ہے اور فیصلہ ووٹ سے ہو گا۔

سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے یہ استفعے منظور کرنے کی خبر ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کہ گزشتہ روز ہی تحریک انصاف کے بقیہ اراکین قومی اسمبلی نے اپنے استعفے واپس لینے کی درخواست الیکشن کمیشن پاکستان میں جمع کرائی تھی۔  گزشتہ روز پی ٹی آئی رہنما عامر ڈوگر اور ریاض فتیانہ پر مشتمل 2 رکنی وفد کی جانب سے الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی درخواست میں کہا گیا تھا کہ ہم اپنی استعفے منظور کرنے کی درخواست واپس لے رہے ہیں، اور سپیکر اور قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کو استعفیٰ واپس لینے سے متعلق آگاہ کردیا ہے۔ درخواست میں الیکشن کمیشن سے کہا گیا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی اگر ہمارے استعفے منظور کرتے ہیں تو ہمیں ڈی نوٹیفائی نہ کیا جائے۔

یاد رہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب کہ گزشتہ ہفتے ہی اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے تحریک انصاف کے 34 اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کرنے کے چند روز بعد اس کے مزید 35 اراکین کے استعفے منظور کرلیے تھے جس کے بعد پی ٹی آئی کے مستعفیٰ اراکین کی تعداد 79 ہوگئی تھی۔ پی ٹی آئی نے گزشتہ سال اپریل میں پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کی برطرفی کے بعد پارلیمنٹ کے ایوان زیریں سے اجتماعی استعفے دے دیے تھے، بعد ازاں اسپیکر قومی اسمبلی نے صرف 11 ارکان کے استعفے منظور کیے تھے اور کہا تھا کہ باقی ارکان اسمبلی کو تصدیق کے لیے انفرادی طور پر طلب کیا جائے گا جب کہ کراچی سے رکن اسمبلی شکور شاد نے اپنا استعفیٰ واپس لے لیا تھا۔ بعد ازاں 17 جنوری کو بھی اسپیکر قومی اسمبلی نے تحریک انصاف کے 34 اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کیے تھے، اس کے علاوہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کا استعفیٰ بھی منظور کرلیا تھا جب کہ تین روز بعد ہی 20 جنوری کو اسپیکر نے پی ٹی آئی کے مزید 35 اراکین کے استعفے منظور کرلیے تھے۔ اب قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے 20 اراکین کے علاوہ دو مزید اراکین باقی بچے ہیں جنہوں نے سپیکر قومی اسمبلی کو چھٹی کی درخواست ڈال رکھی ہے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ یہ دو اراکین بھی راجہ ریاض گروپ میں شامل ہو جائیں گے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا اتفاق ہے کہ دو صوبائی اسمبلیاں توڑنے اور قومی اسمبلی سے استعفے دینے کے فیصلے عمران خان کی سیاسی زندگی کی دو بڑی غلطیاں تھیں جنہیں اب وہ خود بھی تسلیم کر رہے ہیں ورنہ وہ قومی اسمبلی واپس جانے کی کوشش نہ کرتے۔ ان کی یہ کوشش ناکام ہونے کے بعد فارغ ہونے والے اراکین قومی اسمبلی اپنے قائد کی فیصلہ سازی کی صلاحیت پر بھی سوالات کھڑےکررہےہیں۔

Related Articles

Back to top button