خود ضمانتیں لینے والا خان جیل کیسے بھرےگا؟

سابق وزیر اعظم عمران خان نے جہاں ایک طرف جیل بھرو تحریک شروع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے وہیں اپنی گرفتاری سے بچنے کیلئے عدالتوں میں دربدر پھر رہا ہے تاہم وہ دوسروں کے بچوں کو جیل جانے کی ترغیب دیتا نظر آتا ہے۔ عمران خان کے جیل بھرو تحریک کے اعلان کے بعد اس پر ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں بات کر رہا ہے اور ساتھ ہی کئی سوالات بھی گردش کر رہے ہیں۔ لوگ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ جیل بھرو تحریک کا مقصد کیا ہے اور ایسی تحریک کے اعلان کا آخر کیا فائدہ ہے؟ عمران خان کی جیل بھرو تحریک خود پاکستان تحریک انصاف کے لیے امتحان ہوگی یا حکومت کے لیے بھی کڑی آزمائش ثابت ہوسکتی ہے؟
سینئر صحافی عبادالحق اپنی ایک رپورٹ میں بتاتے ہیں جیل بھرو تحریک پہلی بار شروع نہیں کی جا رہی، البتہ ملک میں سویلین حکومت کے دوران یہ احتجاج ضرور پہلی بار ہوگا۔ جنرل ضیا الحق کے مارشل لا میں اسی نوعیت کا احتجاج کیا گیا تھا۔ تحریک بحالی جمہوریت یعنی ایم آر ڈی نے اپنے احتجاج کو مؤثر بنانے کے لیے گرفتاریاں دینے کا اعلان کیا تو اس اعلان پر عمل بھی کیا اور ملک بھر میں گرفتاریاں دیں۔حزب مخالف کی جماعتوں کے اتحاد میں شامل پیپلز پارٹی نے اس احتجاج میں بھرپور حصہ لیا اور ملک بھر میں جہاں کہیں بھی گرفتاری ہوئی تو پیپلز پارٹی اس میں پیش پیش رہی۔ایم آر ڈی کی اس سیاسی حکمت عملی کے تحت تقریباً روازنہ کی بنیاد پر گرفتاریاں ایک معمول بن گئیں۔ حکومت کی یہ کوشش ہوتی ہے احتجاجاً گرفتاری دینے والے رہنماؤں اور کارکنوں کو اس عمل سے پہلے ہی ان کے گھروں یا کسی دوسری جگہ سے گرفتار کرلیا جائے تاکہ وہ خود گرفتاری نہ دے سکیں۔سیاسی کارکن طے شدہ منصوبے کے تحت ایک ایک کرکے کسی مشہور مقام پر اکٹھے ہوتے اور اپنی جماعت کا جھنڈا نکال کر اس لہراتے اور نعرے لگاتے ہوئے گرفتاری دے دیتے۔ اس طرح گرفتاری کا سلسلہ چلتا رہا۔
جہاں لیڈر اور کارکن ایم آر ڈی کی اس تحریک میں شامل رہے وہیں وکلا بھی ان کی رہائی کے لیے پیش پیش رہے اور فوجی دور میں قائم خصوصی اور سمری فوجی عدالتوں میں مقدمات لڑتے رہے۔ایم آر ڈی کے گرفتار رہنماؤں اور کارکنوں کی رہائی کے لیے کام کرنے والےوکیل اور پنجاب بار کونسل کے سابق چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی ملک امجد حسین کے مطابق ’رضاکارانہ طور پر گرفتاریاں دینا احتجاج کی انتہا تھی اور یہ ظاہر کرتی تھی کہ شہری حکومت کے خلاف اس قدر غصہ رکھتے ہیں کہ وہ جیل جانے کو ترجیح دے رہے ہیں‘۔ ان کے بقول عام صورت حال میں مقدمہ قائم ہونے پر ضمانت لینا اولین ترجیح میں شامل ہوتا ہے لیکن اس وقت صورتحال الٹ تھی کہ کسی جرم کے مرتکب ہوئے بغیر گرفتاری دی جارہی تھی۔
یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ رضا کارانہ طور پر گرفتاری دینے والوں کو کیوں گرفتار کیا جاتا ہے؟ حالانکہ ان کے خلاف کوئی مقدمے بھی درج نہیں ہوتے تھے۔ پھر یہ گرفتاری کیسے ہوجاتی تھی؟ اس سوال کا سادہ جواب یہ ہے کہ مارشل لا دور میں کسی سیاسی سرگرمی کو روکنے کے لیے دفعہ 144 نافذ کی جاتی تھی تاکہ 4 سے زیادہ افراد ایک جگہ پر اکٹھے نہ ہوسکیں اور اس کی خلاف وزری پر انہیں گرفتار کرلیا جاتا تھا۔ اُس دور میں فوجی حکومت کے خلاف نعرہ لگانا بھی مارشل لا کے قوانین کے تحت قابل دست اندازی جرم تھا۔ اسی وجہ سے نعرہ لگاکر گرفتاری دے دی جاتی تھی۔ اس کے بعد گرفتار سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو خصوصی اور سمری کورٹ میں پیش کیا جاتا جہاں انہیں سزا سنائی جاتی تھی اور مختلف جیلوں میں منتقل کردیا جاتا تھا۔
عمران خان نے جیل بھرو تحریک کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب ملک میں سویلین حکومت ہے۔ ایسی صورت حال میں گرفتاری کیوں کی جائے گی؟ قانون کے تحت گرفتاری اسی وقت عمل میں لائی جاسکتی ہے جب کوئی قانون کی خلاف وزری کا مرتکب ہو یا پھر اس کے خلاف کوئی مقدمہ درج کیا گیا ہو۔ ان وجوہات کے بغیر کسی کو گرفتار کرنا قانون کی منشا کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ خود ایک جرم ہے۔ پاکستانی قانون کے تحت کسی کو غیر قانونی قید یا حراست میں رکھنا بھی ایک قابل دست اندازی جرم ہے۔
جہاں تحریک انصاف کے لیے جیل بھرو تحریک کوئی آسان ہدف نہیں ہے وہیں حکومت کے لیے بھی اس سے نمٹنا آسان نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گرفتاریوں کے لیے حکومت کو ٹھوس قانونی وجوہات کی ضرورت ہوگی، اس کے بغیر کوئی بھی گرفتاری ایک مشکل عمل ہوگی۔فوجداری قانون کی سمجھ بوجھ رکھنے والے وکلا کے مطابق مقدمے میں نامزد ہونے کے باوجود گرفتاری اس وقت تک ضروری نہیں ہے جب تک پولیس گرفتاری کی ضرورت محسوس نہ کرے۔ اس کیلئےصورتحال کو پرکھا جائے تو پھر بغیر کسی جرم کیے کسی کی گرفتاری کیسے ممکن ہوسکتی ہے؟تحریک انصاف کے اعلان کے مطابق جیل بھرو تحریک 22 فروری سے شروع ہوگی اور گرفتاری دینے کے اس سلسلے کی ابتدا لاہور سے ہو رہی ہے۔ ایم آر ڈی کے دور میں حزب مخالف کے اتحاد میں شامل جماعتوں کے کارکن مال روڈ، ریگل چوک لاہور میں گرفتاری دیتے تھے۔ مال روڈ اور ریگل چوک کو سیاسی سرگرمیوں کے اعتبار سے منفرد مقام حاصل رہا ہے۔
آج کی بات کی جائے تو لاہور کی مال روڈ کی حد تک وہاں احتجاج نہیں ہوسکتا کیونکہ مال روڈ پر احتجاج پر پابندی ہے۔ یوں مال روڈ پر احتجاج کی صورت میں کوئی کارروائی کی جاسکتی ہے لیکن شہر میں دیگر مقامات پر کارروائی کے لیے کم از کم دفعہ 144 کا نفاذ ضروری ہے اور اس طرح حکومت کو گرفتاری کا جواز مل جائے گا۔تحریک انصاف کے اعلان پر مقامی رہنما اور کارکن کسی شہر میں گرفتاری کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں اور حکومت گرفتار نہیں کرتی تو اس صورت میں بھی ایک سیاسی سرگرمی شہر میں ہوگی اور اگر گرفتاری عمل میں آتی ہے تو اس صورت میں حزب مخالف کے اس احتجاج کو توجہ ملے گی۔
قانونی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جیل میں جانا کسی تفریحی مقام پر جانے جیسا نہیں ہے جیل میں قید کرنے کے لیے قانونی تقاضے ہیں جن کو پورا کیے بغیر یہ کسی طور ممکن نہیں ہے۔تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک کے دوران حکومت کتنی گرفتاریاں کرتی ہے اس کا ابھی تعین کرنا یا اس پر رائے دینا قبل از وقت ہوگا۔ البتہ اس طرح تحریک انصاف کو احتجاج کا پلیٹ فارم مل جائے گا جو تحریک انصاف کو سیاسی فائدہ دے سکتا ہے۔