حکمران اشرافیہ کی 17 ارب ڈالر کی مراعات و عیاشیوں کی کہانی

اقوام متحدہ کے ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی اشرافیہ ریاست سے سالانہ 17 ارب ڈالر سے زائد کی مراعات اور سہولیات کے مزے لوٹتی ہے۔ ان میں وہ سہولیات شامل ہیں جو پراپرٹی کے کاروبار سے جڑے سیٹھوں، لاڈلے صنعتی شعبے اور فوج کے کارپوریٹ اداروں سمیت دوسرے اشرافی طبقات کو دی جاتی ہیں۔

سینئر صحافی رضا رومی کے مطابق اتحادی حکومت کے لئے  معاشی بحران ایک سنگین چیلنج ثابت ہو رہا ہے۔ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 3 ارب ڈالر تک گر چکے ہیں، جو بمشکل 18 دن کی درآمدات کے لئے کافی ہیں۔ توقع ہے کہ عالمی مالیاتی بینک یعنی آئی ایم ایف پاکستان کے لئے ایک اور بیل آؤٹ پیکج کی منظوری دے دے گا۔ اس سے ڈالر کے لئے تڑپتی معیشت کو عارضی طور پر کچھ راحت مل سکتی ہے لیکن بیرونی قرضوں کے تیزی سے بڑھنے اور دسمبر 2023 تک 20 ارب ڈالر کی ادائیگیوں کے پیش نظر ایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کی قسط بھی پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن کی صورت میں درپیش مشکلات کو قابل ذکر حد تک کم کرنے میں ناکام ثابت ہو گی۔

آئی ایم ایف کے مطالبے پر روپے کی قدر کو مارکیٹ کی قوت کے رحم و کرم پر چھوڑ نے سےحالیہ مہینوں میں روپے کی قدر میں 30 فیصد سے زیادہ کمی ریکارڈ کی گئی ہے اور یہ کمی پاکستان میں مہنگائی کا ایک بڑا محرک ثابت ہو رہی ہے جس کی شرح سالانہ حساب کے مطابق جنوری 2023 میں 27.3 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔

قرضوں، تجارتی خسارے اور افراط زر کے اردگرد مرکوز رکاوٹوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں ادائیگیوں کے توازن کا جو بحران دکھائی دے رہا ہے وہ دراصل حکمرانی کا بحران ہے۔ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں ہنر مند، صحت مند اور تعلیم یافتہ افرادی قوت تیار کرنے میں درکار سرمایہ کاری کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس کے بجائے انہوں نے طاقتور گروہوں کی حمایت جاری رکھی، اپنے ذاتی مفادات کو تقویت دی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ ٹیکس دہندگان کے ایما پر مشکوک لابیاں پھلتی پھولتی رہیں۔

1950 کی دہائی سے ترقی یافتہ دنیا کی جانب سے مہیا ہونے والے امدادی ٹیکوں نے پاکستان میں سٹیٹس کو کو برقرار رکھنے میں مدد فراہم کی ہے۔ اشرافیہ خاص طور پر پاک فوج، سیاسی طبقے، بڑے زمینداروں اور کارپوریٹ صنعت کاروں نے ملک پر حکمرانی کی ہے اور ان طبقات نے برآمدات پر مبنی معیشت کی تشکیل کے لئے ٹیکس کے نظام کی تنظیم نو کی کوششوں اور تعلیم، سائنس اور اختراع کے میدان میں سرمایہ کاری کی ہمیشہ مزاحمت کی ہے۔ افغانستان سے امریکہ کے انخلاء اور مغرب کی فوری سکیورٹی ضرورت نہ ہونے کے باعث پاکستان کی اشرافیہ مایوسی کا شکار ہو چکی ہے اور اشرافیہ سے نیچے والے طبقات کی حالت بد سے بدتر ہو گئی ہے۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کی 2021 کی تحقیق میں سامنے آیا تھا کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی اشرافیہ ریاست سے سالانہ 17 ارب ڈالر سے زائد کی مراعات اور سہولیات کے مزے لوٹتی ہے۔ ان اعداد و شمار میں وہ سہولیات شامل ہیں جو پراپرٹی کے کاروبار سے جڑے سیٹھوں، لاڈلے صنعتی شعبے اور فوج کے کارپوریٹ اداروں سمیت دوسرے اشرافی طبقات کو دی جاتی ہیں۔ وہ مراعات جن سے یہ طبقات آج بھی مستفید ہو رہے ہیں وہ ٹیکس کی چھوٹ، کم لاگت کی پیداوار، مصنوعات کی مہنگے داموں فروخت، یا سرمائے، زمین، خدمات اور یہاں تک کہ کچھ مقامی منڈیوں تک ترجیحی رسائی کی صورت میں موجود ہیں۔ یہ مراعات ‘کھیل کے اصولوں’ کو لازمی طور پر غیر متعلقہ بنا دیتی ہیں جس سے پاکستان سرمایہ کاری یا اختراع کے لیے ایک غیر دلکش منزل بن کے رہ جاتا ہے۔

ریاست کی جانب سے دی جانے والی مالیاتی مراعات کا سب سے بڑا حصہ ملک کا کارپوریٹ سیکٹر لے جاتا رہا ہے جو ہر سال ایک اندازے کے مطابق 4.7 ارب ڈالر بنتے ہیں۔ دوسرے اور تیسرے نمبر پر مراعات وصول کرنے والے لوگ ملک کا امیر ترین ‘ایک فیصد’ طبقہ اشرافیہ رہا ہے جو ملک کی مجموعی آمدنی کے 9 فیصد کا مالک ہے اور جاگیردار طبقہ جو کل آبادی کا 1.1 فیصد ہے مگر تمام قابل کاشت زمین میں سے 22 فیصد کا مالک ہے۔

دولت مند زمیندار اور جاگیردار طبقے نے ہمیشہ پارلیمنٹ میں اپنی بااثر موجودگی برقرار رکھی ہے۔ زیادہ تر بڑی سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کا انتخاب ‘الیکٹ ایبلز’ میں سے کرتی آئی ہیں جو عام طور پر جاگیردار اشرافیہ کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستان بھر میں اور خاص طور پر دیہی علاقوں میں زمین، سرمائے اور ذات پات کے نیٹ ورک کا کنٹرول انتخابی معرکوں میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔

رضا رومی کے مطابق فوج سے وابستہ تجارتی اداروں کو ٹیکس کی چھوٹ اور بجٹ کے بڑے حصے کے ذریعے سے دی جانے والی مالی مدد کے علاوہ پاک فوج کو حاصل مراعات میں مارکیٹوں تک ترجیحی رسائی اور رہائشی اور تجارتی مقاصد کے لئے زمینوں کی فراہمی شامل ہیں۔ پاکستان آرمی میں خدمات سرانجام دینے والے سینیئر افسران خصوصاً اور کچھ حد تک ایئر فورس اور نیوی کے حاضر سروس سینیئر افسران بھی جب اعلیٰ عہدوں تک پہنچتے ہیں تو ان کو حاصل مراعات اور سہولیات میں بے پناہ اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ فوجی اہلکاروں کو دوران ملازمت رہائشی پلاٹ اور کمرشل زمینیں فراہم کی جاتی ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن اور اعلیٰ کارپوریٹ عہدے ان مراعات کے علاوہ ہیں۔

جب تک پاکستان کے حکمران طبقات ریاست کی جانب سے ملنے والی مالی مراعات یعنی ٹیکسوں میں چھوٹ، سبسڈی اور رعایات سے دستبردار ہونے کے لئے رضامندی نہیں ظاہر کریں گے تب تک حکومت کے سالانہ بے تحاشہ اخراجات میں کمی واقع نہیں ہو سکے گی اور نتیجے کے طور پر ہمیشہ رہنے والا بجٹ خسارہ جوں کا توں رہے گا۔

سچ کہا جائے تو آئی ایم ایف کوئی ناجائز مطالبہ نہیں کر رہا؛ وہ محض ٹیکس کے نیٹ ورک کو وسیع کرنے اور مالیاتی خسارے کو کم کرنے کی بات کر رہا ہے۔ ماضی میں جب پاکستان کو اسی طرح کے مطالبات کا سامنا کرنا پڑا تھا تو یکے بعد دیگرے آنے والی پاکستانی حکومتوں کی جانب سے طے شدہ پالیسی ردعمل یہی آتا رہا ہے کہ بالواسطہ ٹیکسوں کے نفاذ میں اضافہ کر دیا جائے اور سارا بوجھ عوام، خاص طور پر غریبوں اور مقررہ آمدنی والے طبقات پر ڈال دیا جائے۔

کئی دہائیوں تک سول ملٹری بیوروکریسی اور ان کے لیے محاذ بنانے والے سیاست دان بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر ڈالتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ حکمت عملی تیزی سے اپنی مدت میعاد کے خاتمے کی جانب بڑھ رہی ہے کیونکہ عوام پر بوجھ منتقل کرنے کی سیاسی قیمت منتخب حکومتوں کے لیے ناقابل برداشت صورت اختیار کر گئی ہے۔ موجودہ حکمران اتحاد کو خدشہ ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اس کی سیاسی طاقت کو ختم کر دے گی اور آئندہ انتخابات میں جیت کے امکانات کو محدود کر دے گی۔ لگ رہا ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔

موجودہ بحرانوں کا تریاق سب کو معلوم ہے؛ ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانا اور اسے وسعت دینا، ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو متحرک کرنا جو کہ جی ڈی پی کے 15 فیصد حصے سے بھی کم ہو چکی ہے اور توانائی کے شعبے کو ٹھیک کرنا جو گردشی قرضوں میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔ پاکستان کو خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں کی نجکاری پر توجہ دینا ہو گی جن کی وجہ سے ہر سال 1 ہزار ارب روپے سے زیادہ کا خسارہ جھیلنا پڑتا ہے۔ دفاعی اخراجات کو معقول سطح تک لانے کے موضوع پر بھی کھل کر بات چیت کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔

اصلاحات متعارف کروانے اور اس طرح کے فضول خرچوں کو کم کرنے کے لیے ایک قومی پالیسی ایجنڈے کی ضرورت ہے جس میں فوج سمیت تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز کی شمولیت ضروری ہے۔ بڑے سیاسی کھلاڑی یعنی پی ڈی ایم کا حکومتی اتحاد اور سابق وزیر اعظم عمران خان ایک دوسرے کو جیلوں میں ڈالنے اور سیاسی طور پر ناپید کرنے کے لیے اتاولے ہوئے جا رہے ہیں۔ 1990 کی دہائی کی سیاست ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اس طرح کا شدید سیاسی تنازعہ وہ استحکام حاصل کرنے میں ناکام ثابت ہوتا ہے جو پالیسی اتفاق رائے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

مختصر مدت میں طبقہ اشرافیہ کے درمیان جاری کشمکش معاملات کو مزید خراب کر رہی ہے۔ مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح اور عوام میں پیدا ہوتے احساس محرومی کو دیکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر سماجی اتھل پتھل پیدا ہو سکتی ہے۔

اب کس کی آڈیوز اور ویڈیوز لیک ہونے والی ہیں؟

Related Articles

Back to top button