شہباز تاثیر کے اغواء اور رہائی کی کہانی، ان کی اپنی زبانی

طالبان کے ہاتھوں اغوا ہونے کے بعد ان کی قید میں کئی برس افغانستان میں گزارنے اور پھر معجزاتی طور پر زندہ بچ کر پاکستان واپس آنے والے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے صاحبزادے شہباز تاثیر نے اپنی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ دوران حراست طالبان ان پر بدترین تشدد کرتے اور انکی ویڈیوز بنا کر انکی والدہ کو بھجواتے اور انھیں کہتے کہ اس ویڈیو میں ہم نے آپ کے لیے پیغام رکھے ہیں تاکہ وہ شروع سے لے کر آخر تک پوری ویڈیو دیکھیں۔

یادرہے کہ 2011 تاثیر خاندان کے لیے خاصا مشکل سال رہا۔ جنوری میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو اسلام آباد میں توہین مذہب کے لا یعنی الزام پر قتل کیا گیا جبکہ اگست میں ان کے بیٹے شہباز تاثیر کو لاہور کے پوش علاقے گلبرگ سے اغوا کیا گیا۔ شہباز تاثیر تقریباً پانچ سال بعد مارچ 2016 میں طالبان کی قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ زندگی کے ان چند برسوں کو، جن میں وہ بظاہر باقی دنیا کے لیے غائب تھے، شہباز تاثیر نے ایک کتاب کی شکل دی ہے جس کا عنوان ’لاسٹ ٹو دی ورلڈ‘ Lost To The World ہے۔ یہ کتاب دوران قید ان واقعات اور جذبات کا مجموعہ ہے جنھوں نے ہمیشہ کے لیے ان کی زندگی بدل کر رکھ دی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے اپنے والد سلمان تاثیر اور ان کے قتل سے جڑے چند واقعات کا بھی ذکر کیا ہے۔

شہباز تاثیر نے ایک انٹرویو میں بی بی سی کو بتایا کہ اس کتاب کا عنوان اور مواد ’میری زندگی کے تاریک لمحوں کو بیان کرتے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’اس کتاب کو لکھنے کا سفر خاصہ مشکل تھا کیونکہ میں ہر روز ان لمحوں کو دوبارہ جیتا تھا جو میرے لیے انتہائی تکلیف دے تھے۔ ’یہ کتاب اس دن سے شروع ہوتی ہے جب دوپہر کے وقت مجھے لاہور سے میرے دفتر کے باہر سے اغوا کیا گیا اور وہاں ختم ہوتی ہے جب میں پاکستان پہنچا اور میں نے اپنی والدہ کو فون کیا کہ مجھے آ کر ریسکیو کریں۔‘ ان کی اس ایک کال نے پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ہلچل پیدا کر دی تھی جس کے بعد ’فوج آئی اور انھوں نے مجھے وہاں سے ریسکیو کیا۔‘ وہ یاد کرتے ہیں کہ ’ازبک طالبان کی قید سے فرار کروانے میں میری مدد افغان طالبان کے ایک کمانڈر نے کی تھی۔‘ ’اس وقت میں نہیں جانتا تھا کہ یہ اغوا کار کون ہیں لیکن جب میں ایک طویل سفر طے کر کے وزیرستان سے افغانستان جا رہا تھا تو اس لمحے مجھے لگا کہ شاید میں اپنے ملک کبھی واپس نہیں آ پاؤں گا۔‘

والد کے قتل کے چند ماہ بعد شہباز تاثیر کا اغوا ایک ایسے وقت میں ہوا جب پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشتگردی کے خلاف آپریشن جاری تھا۔ ’مجھے یاد ہے کہ شدید بمباری ہو رہی تھی۔ مجھے طالبان کے ازبک گروپ نے اغوا کیا تھا لیکن بعد میں انھوں نے داعش کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی۔‘ انھیں ایک ’چھوٹے سے کمرے میں قید رکھا گیا‘ جس سے وہ اردگرد کے ماحول کے بارے میں بے خبر رہے مگر کبھی کبھار انھیں ریڈیو سننے کو مل جاتا تھا۔ شہباز تاثیر کا کہنا ہے کہ ان پر دوران قید کئی بار تشدد کیا گیا۔ انکا کہنا ہے کہ ’وہ لوگ بہت ظالم لوگ تھے۔ ان میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ جب میں نے پہلی مرتبہ ان کو اپنی والدہ سے فون پر بات کرتے سنا تو انھوں نے میری رہائی کے لیے 40 ملین ڈالر تاوان کا مطالبہ کیا۔ یہ سن کر مجھے یقین ہو گیا کہ اب میری زندگی کچھ عرصے کے لیے ہی ہے کیونکہ آپ جتنے مرضی امیر ہوں، آپ کا باپ جو مرضی ہو، کوئی بھی کسی دہشتگرد گروپ کو اتنے پیسے نہیں دے سکتا اور نہ ہی کوئی انھیں اتنے پیسے دینے دے گا۔ ناامید ہو کر میں روتا تھا کہ میری والدہ سے میری ایک مرتبہ بات کروا دیں۔ وہ لوگ مجھ پر بدترین تشدد کرتے تھے۔ آج بھی میری کمر کٹی ہوئی ہے۔ تشدد کے نشانات موجود ہیں۔ جب بھی میں آئینے میں اپنے ان نشانات کو دیکھتا ہوں تو وہ لمحے یاد آجاتے ہیں۔ اس سارے عرصے میں میرے ساتھ یہ اذیت میرے گھر والے اور میری والدہ بھی برداشت کرتی تھیں۔‘

شہباز تاثیر کہتے ہیں کہ ’سوچیں جس عورت کے شوہر کو قتل کر دیا گیا ہو اور اس کے بعد اس کے بیٹے کو اغوا کر لیا جائے اور پھر پانچ سال اس کو ذہنی اذیت دی گئی ہو تو وہ عورت کتنے صبر والی ہو گی۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ان کے اغواکار ان کی ’بے بسی اور تشدد کی ویڈیوز بنا کر میری والدہ کو دکھاتے تھے۔ وہ ہر فون کال پر ان سے مذاکرات کرنے کوشش کرتی تھیں لیکن ناکامی ہوتی تھی۔‘ مگر شہباز کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’میں اس سارے عرصے میں اللہ کی ذات سے کبھی ناامید نہیں ہوا تھا۔ ان سختیوں نے مجھے کم از کم صبر کرنا سیکھا دیا تھا۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ صرف ایک چیز نے انھیں دنیا سے باخبر رکھا اور وہ تھا ریڈیو۔ ’ریڈیو پر میں بی بی سی اردو سنتا تھا جس سے مجھے پاکستان کی خبریں سننے کو مل جاتی تھیں اور اسی ریڈیو پر میں فٹبال کے میچز کے بارے میں سن لیتا تھا۔‘

شہباز تاثیر نے انٹرویو کے دوران بتایا کہ اپنے اغوا سے زیادہ ان کے لیے اس بارے میں لکھنا مشکل تھا کہ جن حالات میں ان کے والد کا قتل ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے یہ واقعات ’سیاست کی آنکھ سے نہیں بلکہ ایک خاندان کی آنکھ سے بتانے کی کوشش کی ہے جو ہم پر بیتی۔‘ اس دن کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’میرے چھوٹے بھائی کی سالگرہ تھی جس روز میرے والد کا قتل ہوا۔ وہ معمول کے کاموں کے لیے گھر سے نکلے تھے۔ میری والدہ ان سے رابطے میں تھیں۔ ان کے قتل سے کچھ دیر پہلے میں نے ان سے فون پر بات کی اور انھیں کہا کہ گھر پر ہم بھائی کی سالگرہ منانے کی تیاری کر رہے ہیں تو آپ کوشش کر کے آج جلدی آ جائیے گا۔‘ میں کسی کام سے گھر سے نکلنے کے لیے گیراج تک پہنچا ہی تھا کہ مجھے میری خالہ کہ کال آگئی کہ ٹی وی پر میرے والد کے قتل کی خبر چل رہی ہے۔ وہ وقت میرے خاندان کے لیے سب سے مشکل وقت تھا۔ اس کے بعد سب نے دیکھا کہ کس طرح ان کے قتل پر لوگوں نے ردعمل دیا۔ بہت سے لوگ انھیں صحیح سمجھتے تھے اور بہت سے ایسے بھی لوگ تھے جو ان کے قتل کو جائز کہتے تھے اور وہ وہی لوگ تھے جنھوں نے بعد میں سیاسی طور پر ان کے قاتل کے حق میں بات کی تھی۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ سارا عمل میرے اور میرے خاندان کے لیے تکلیف دہ تھا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میرے والد حق پر تھے۔ کسی غریب کی مدد کرنا ہم سب کا فرض ہے، چاہے اس کا جو مرضی مذہب ہو۔‘شہباز تاثیر کہتے ہیں کہ رہائی کے بعد انھیں ایک سال ذہنی تکلیف سے نکلنے میں لگا اور پھر اس کے بعد انھوں نے اپنی کتاب پر کام شروع کیا۔ ’بنیادی طور پر یہ کتاب صرف ایک ہی سبق دیتی ہے: کبھی ناامید نہ ہوں۔ اللہ پر بھروسہ رکھیں، وہ آپ کے لیے ایسے راستے کھولتا ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔

Related Articles

Back to top button