’کے ٹو‘پر ایک دن میں 40 سال سے دُگنا کچرا کیسے جمع ہوا؟

دنیا میں بھر میں کوہ پیمائی کیلئے مشہور پاکستانی پہاڑ ’’کے ٹو‘‘ اچانک ڈھیروں کچرا بڑھنے پر شہ سرخیوں میں آ گیا ہے، دنیا کی بلند ترین چوٹی پر 1954 سے لے کر 1994 تک 40 سال میں 100 سے زائد سمٹس ہوئیں جن میں سے صرف 30 فیصد میں مصنوعی آکسیجن کا استعمال ہوا، لیکن 2022 میں 22 جولائی کو صرف ایک دن میں 141 سمٹس ہوئیں جن میں سے 97 فیصد میں مصنوعی آکسیجن استعمال ہوئی، یوں ایک دن میں پہلی مرتبہ کے ٹو پر 40 سال سے بھی دُگنا کچرا جمع ہوا ہے۔یہ وہی پہاڑ ہے جن سے نکلنے والے گلیشیئرخاص طور پر پاکستان میں لاتعداد ندی نالوں، چشموں اورجھرنوں کی صورت میں ہمیں پانی فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں مگر اوال یہ ہے کہ جن پہاڑوں پر جانا زندگی کو خطرے میں لانے کے مترادف ہے اگر وہ بھی گندگی کے ڈھیروں میں تبدیل ہو جائیں تو کیا ہو گا؟

ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے اونچے پہاڑوں کی کمرشلائزیشن جو ایورسٹ پر برسوں پہلے ہوئی تھی، اب اس کے اثرات باقی 8000 میٹر سے بلند دیگر چوٹیوں تک پہنچ گئے ہیں، حال ہی میں سوشل میڈیا اور کوہ پیمائی سے وابستہ گروپس میں نیپالی کوہ پیما اور ایلیٹ ایکسپیڈیشن کمپنی کے بانی نرمل پرجا فاؤنڈیشن کی شیئر کی کردہ ایک ویڈیو زیرِ بحث رہی ہے جس میں وہ کے ٹو پر جمع کچرے کا پہاڑ دکھاتے ہوئے اس کی صفائی کے لیے عطیات مانگ رہے ہیں۔ مگر اس کچرے کی جانب توجہ دلوانے والے نرمل اکیلے نہیں، رواں سیزن میں کے ٹو سر کرنے کے لیے آنے والی امریکی کوہ پیما سارہ سٹریٹن کا کہنا تھا کہ وہ اس سال کے ٹو پر کچرے کے ڈھیر سے حیران رہ گئیں، پیرو کی کوہ پیما فلور کوئنکا، جنھوں نے 27 جولائی کو کے ٹو سر کیا نے، پاکستان کے قراقرم سلسلے میں واقع اس پہاڑ کو غلاظت سے بھرپور مقام کہا، فلور نے کوہ پیمائی کرنے والی بڑی کمپنیوں کو اس تباہی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

حال ہی میں کے ٹو سر کرنے والی پاکستانی کوہ پیما نائلہ کیانی نے بتایا کہ کے ٹو کے راستے میں کیمپ ون اور ٹو تو کافی گندے تھے البتہ اس سے اوپر اتنی بری صورتحال نہیں تھی جتنی نرمل پرجا کی ویڈیو میں دکھائی گئی ہے۔ عمران حیدر تھہیم کوہ پیمائی کے شوقین اور گذشتہ 11 برس سے کوہ پیمائی کے لیے پاکستان آنے والی مہمات پر تحقیق کرتے آ رہے ہیں، ان کے مطابق پہاڑوں پر دو قسم کا کچرا جمع ہوتا ہے۔ پہلی قسم میں انسانی کھانے اور فضلہ شامل ہے، جبکہ دوسری قسم ماؤنٹین ہارڈ ویئر ہے، عموماً جن ممالک میں 8000 میٹر سے بلند چوٹیاں موجود ہیں وہاں کچرا صاف کرنے کی ذمہ داری پرمٹ جاری کرنے والی اتھارٹی کی ہوتی ہے کہ وہ ایکو ٹورازم کے ساتھ پہاڑوں کی صفائی کے حوالے سے کوہ پیمائی کے بین الاقوامی معیارات کو برقرار رکھیں۔

طالبان حکومت نے امریکی ڈرونز کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی

یاد رہے کہ نیپال میں چوٹیوں کی صفائی کا ذمہ ڈیپارٹمنٹ آف ٹورازم کا ہے جبکہ پاکستان میں موجود پہاڑوں پر سے کچرا صاف کرنے کی ذمہ داری حکومتی سطح پر محکمہ ٹورازم گلگت بلتستان کی ہے۔ کوہ پیمائی کی کسی بھی کمپنی کو پرمٹ جاری کرتے وقت ان سے ایک مقررہ رقم وصول کی جاتی ہے تاکہ بعد میں پہاڑ پر پھیلنے والا کچرا صاف کیا جا سکے جو ڈائریکٹوریٹ آف سینٹرل قراقرم نیشنل پارک گلگت بلتستان کا کام ہے۔ ڈائریکٹر ٹورازم جے پی یاسر حسین نے بتایا کہ اس مرتبہ ریکارڈ تعداد میں کوہ پیما کے ٹو اور دوسرے پہاڑ سر کرنے آئے جن میں سے بہت سے کوہ پیما اور کمپنیاں اپنا کچرا چھوڑ کر چلے گئے، یہ سب سینٹرل قراقرم نیشنل پارک گلگت بلتستان کے لیے بھی ایک نیا تجربہ تھا، یہ ادارہ ہر غیر ملکی کوہ پیما سے 150 ڈالر فیس لیتا ہے، اور اس سال پاکستانی کوہ پیماؤں اور ٹریکرز سے بھی فیس چارج کی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ دو جولائی سے لے کر 18 اگست تک 12 سے 15 افراد کی ایکسپیڈیشن نے کیمپ ون سے فور تک کے ٹو کی صفائی کی اور 16010 کلو گرام کچرا جمع کیا ہے، اس حوالے سے کے ٹو کے بیس کیمپ پر اکٹھا کیے گئے کچرے کی کچھ تصاویر بھی شئیر کیں۔ یاسر حسین نے کے ٹو پر کچرے کی تصاویر شیئر کرنے اور صفائی کے لیے عطیات جمع کرنے والوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے ادارے باہر بیٹھ کر شور مچا رہے ہیں کہ کے ٹو پر کچرا ہے ہمیں فنڈ دیں، انھیں کس نے اجازت دی کہ پرانی تصاویر شیئر کر کے غلط معلومات پھیلا کر دنیا کو گمراہ کر یں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ وہی لوگ ہیں جو خود کچرا چھوڑ کر گئے اور اب شور مچا رہے ہیں۔ لیکن زیادہ رش کو دیکھتے ہوئے پالیسی اور ریگولیشن کو تبدیل کیا جا رہا ہے، اور ہم ٹور آپریٹر پر سختی بڑھانے کے علاوہ ان پر جرمانے لگانے کا بھی سوچ رہے ہیں۔

Related Articles

Back to top button