بیرونِ ملک بھکاری بھیجنے والے نیٹ ورکس کے خلاف قانون سازی شروع

متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستان کے 30 شہروں کے رہائشیوں کے داخلے پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد شہباز حکومت نے بھیک مانگنے کے لیے بیرون ملک جانے والوں کو روکنے کی خاطر قانون سازی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس قانون سازی کے ذریعے گداگری کے نیٹ ورکس چلانے والوں کو انسانی اسمگلنگ کے قوانین کے تحت لانے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ انہیں کڑی سزائیں دی جا سکیں۔

یاد ریے کہ یو اے ای کے بیورو آف امیگریشن نے پاکستانیوں کے ایمپلائمنٹ ویزے کے لئے نئی شرائط لاگو کر دی ہیں جن کے مطابق یو اے ای ملازمت کے لیے جانے والوں کو اب ورک ویزا کے ساتھ پولیس کریکٹر سرٹیفکیٹ بھی حاصل کرنا ہوگا۔ یو اے ای نے پہلے ہی پاکستان کے 24 شہروں پر وزٹ ویزا پر پابندی عائد کی ہوئی ہے جو اب بڑھا کر 30 شہروں تک پھیلا دی گئی ہے۔ یو اے ای میں پاکستانیوں کو گزشتہ ایک سال سے ورک ویزا بھی نہیں مل پا رہا جس سے گزشتہ سال ایک لاکھ سے زائد افراد یو اے ای نوکری کے لئے نہیں جا سکے۔

چنانچہ اب پاکستانی وزارتِ داخلہ کی جانب سےبیرون ملک پاکستانی بھکاری جانے کی روک تھام کےلیے انسدادِ انسانی اسمگلنگ ایکٹ 2018 میں ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کر دیا گیا ہے جس کو مذید غور کے لیے متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوادیا گیا ہے۔ یہ ترمیمی بل ایسے وقت میں پیش کیا گیا ہے جب متحدہ عرب امارات کے علاوہ سعودی عرب میں پاکستان سے جانے والے بھکاریوں کے معاملے کو حکومت پاکستان کے سامنے اٹھایا جا رہا ہے۔ حال ہی میں پاکستان کے دورے پر آنے والے سعودی عرب کے نائب وزیر داخلہ نے پاکستانی ہم منصب سے ملاقات کی تھی۔پاکستانی وزارتِ داخلہ کے ترجمان کے مطابق 20 نومبر 2024 کو ہونے والی ملاقات کے دوران پاکستان سے بھکاریوں کو سعودی عرب بھجوانے والی مافیا کی سرکوبی پر بات چیت کی گئی تھی ۔ اس موقعے پر وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے سعودی عرب کے نائب وزیرِ داخلہ کو بتایا تھا کہ حکومتِ پاکستان نے 4300 بھکاریوں کے نام ای سی ایل میں شامل کیے ہیں اور معاملے پر زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھکاری مافیا کے خلاف ملک بھر میں مؤثر کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔

سعودی نائب وزیر داخلہ کے دورۂ پاکستان سے قبل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اوور سیز کے اجلاس میں متعلقہ سیکریٹری نے بتایا تھا کہ بیرون ممالک میں گرفتار ہونے والے بھکاریوں میں 90 فی صد پاکستانی ہوتے ہیں۔بھکاری اکثر عمرے کے ویزے پر جاتے ہیں اور سعودی عرب جا کر زائرین سے بھیک مانگتے ہیں ۔ سیکریٹری اوور سیز نے کمیٹی کو یہ بھی بتایا تھا کہ سعودی کے علاعہ یو اے ای کے سفیر بھی ایسی شکایات کر چکے ہیں۔ گذشتہ برس سعودی حکام نے خبردار کیا تھا کہ پاکستان سے عمرے اور حج کی آڑ میں آنے والے بھکاریوں پر قابو نہ پایا گیا تو اس کا پاکستانی عمرہ اور حج زائرین پر منفی اثر پڑے گا ۔ اکتوبر 2023 میں وائس آف امریکہ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بھکاریوں کو سعودی عرب بھیجنے والے نیٹ ورک میں بعض ٹریول ایجنٹس بھی ملوث ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے کی حراست میں موجود ایک مبینہ بھکاری نے بتایا تھا کہ سعودی عرب جانے کے لیے بعض اوقات ایجنٹ ٹکٹ اور ویزا کے پیسے خود دیتے ہیں۔ اگر کسی بھکاری کے پاس سفر کے لیے مطلوبہ اخراجات نہ ہوں تو اس کا خرچ ٹریول ایجنٹ برداشت کرتا ہے۔ بعدازاں یہ رقم بھیک کی صورت میں ہونے والی آمدن سے کاٹ لی جاتی ہے ۔

مبینہ بھکاری کے مطابق جب کوئی سعودی عرب سے بھیک مانگ کر واپس آتا ہے بھیک کی رقم بھکاری اور ایجنٹ میں برابر تقسیم ہوتی ہے۔ ایف آئی اے نے گذشتہ برس جولائی میں ملتان سے بھکاریوں کو سعودی عرب بھجوانے والےچار ایجنٹس کو گرفتار کیا تھا ۔ اکتوبر 2023 میں ملتان سے بھیک مانگنے کے لیے جانے والے 24 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا جن میں 12 مرد 11 خواتین اور ایک بچہ شامل تھا ۔ ان مرد و خواتین کی تلاشی لی گئی تو بھیک مانگنے کے لیے استعمال ہونے والے کشکول برآمد ہوئے تھے۔جب کہ گذشتہ برس نومبر میں ملتان ہی سے سعودی عرب بھیک مانگنے کے لیے جانے والے نو مسافروں کو آف لوڈ کیا گیا تھا۔

اب حکومت کی جانب سے سینیٹ میں انسدادِ انسانی اسمگلنگ ایکٹ 2018 میں ترمیم کے لیے پیش ہونے والے بل میں منظم انداز میں بھیک مانگنے کی تعریف بیان کی گئی ہے۔ ترمیمی بل میں منظم بھیک مانگنے کےلیے کسی کو بھرتی کرنے، پناہ دینے، منتقل کرنے والے شخص کو سات سال تک قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا دینے کی تجویز دی گئی ہے۔ بل کے مطابق منظم بھیک مانگنے سے مراد کسی شخص کو جان بوجھ کر، فراڈ، زور زبردستی بھیک مانگنے یا خیرات وصول کرنے میں ملوث کرنا ہے۔ دھوکہ دہی، زبردستی، ورغلا کر یا لالچ دےکر کسی بہانے سےبھیک مانگنے یا خیرات وصول کرنے میں ملوث کرنا بھی منظم طریقے سے بھیک مانگنے کے زمرے میں آئے گا۔

بل میں قسمت کا حال بتا کر یا کرتب دکھا کر رقم مانگنے کو بھی منظم بھیک مانگنا قرار دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ بل میں اشیا فروخت کرنے کے بہانے، بار بار گاڑیوں کی کھڑکیوں پر دستک دینے، زبردستی گاڑیوں کے شیشے صاف کرنے جیسے طریقوں سے بھیک مانگنے کا بھی ذکر ہے۔

بل میں ان مقاصد کے لیے افراد کو بیرون بھیجنے اور منظم کرنے کو انسانی اسمگلنگ قرار دیا گیا ہے اور قانون کے تحت سات سال قید اور دس لاکھ جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ اس بل کا مقصد پاکستان کا مفاد ہے کیونکہ بھکاری نیٹ ورکس کی وجہ سے پاکستان کے لیے سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات اور کویت کی ویزا پالیسی برادرانہ نہیں رہی جسکی وجہ سے انجنیئرز اور اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانیوں کو بھی ویزے نہیں مل رہے۔

Back to top button