کیا خود پسند مریم نواز پنجاب کا نام بھی تبدیل کرنے جا رہی ہیں؟

خود پسندی کا شکار ہو جانے کے بعد اپنی ذات کے گنبد میں بند وزیر اعلی مریم نواز شریف جس تیزی کے ساتھ پنجاب میں شروع ہونے والے ہر منصوبے کا نام اپنے اور اپنے والد نواز شریف کے نام سے منسوب کر رہی ہیں اس سے تو یہی لگتا ہے کہ کچھ عرصے میں وہ صوبہ پنجاب کا نام بھی بدل کر صوبہ مریم اور نواز رکھ دیں گی۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی روزنامہ جنگ میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ پنجاب اب ایک صوبے کی بجائے شریفوں کی خاندانی جاگیر میں تبدیل ہو رہا ہے۔ لہٰذا بہتر ہو گا کہ وزیراعلیٰ مریم نواز باقاعدہ اعلان کر دیں کہ پنجاب کا نام بدل کر ’’صوبہ مریم و نواز‘‘ رکھ دیا گیا ہے۔ جب ہر دوسرا منصوبہ یا تو نواز شریف کے نام سے منسوب ہو یا مریم نواز کے نام سے، تو پھر پنجاب کو ہی اپنے نام سے منسوب کر دیں۔ انصار عباسی کے مطابق سب سے افسوس ناک واقعہ یہ ہوا ہے کہ مریم نواز نے لاہور میں سابق نگران وزیراعلی محسن نقوی کے شروع کردہ جناح انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا نام بھی تبدیل کرتے ہوئے مریم نواز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی‘‘رکھ دیا ہے۔ یعنی چھچھورے پن کی آخری حد بھی کراس کر لی گئی ہے۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نام کو تبدیل کر کے اس کی جگہ اپنا نام لگا دینا شرمناک ترین حرکت ہے۔ یہ صرف ایک نام کی تبدیلی کا معاملہ نہیں، بلکہ ایک گھٹیا سوچ کی عکاسی ہے۔ اس سوچ کے مطابق عوام پر لگائے گئے ٹیکسوں سے اکٹھے کیے جانے والی قومی خزانے کو عوام کی فلاح کے لیے خرچنا بھی عوام پر احسان کے مترادف ہے لہٰذا ایسا کرتے وقت اپنی ذاتی تشہیر لازمی ہونی ہونی چاہیے۔ حد تو یہ ہے کہ کوئی بس سٹاپ ہو یا کوڑے کا کنٹینر، اپنی ذات کے گنبد میں بند مریم نواز اس پر اپنی تصویر لگوانا نہیں بھولتیں۔

مریم نواز کی بگڑتی ہوئی ذہنی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پنجاب حکومت کے سال 2025-26 کے بجٹ میں 13 نئے پراجیکٹس کے نام نواز شریف اور مریم نواز کے نام سے منسوب کیے گے ییں۔ یعنی  عوام پر دھڑا دھڑ ٹیکسز لگا کر جو پیسہ اکٹھا کیا جا رہا ہے اسے عوامی منصوبوں پر خرچتے وقت بھی فوکس اپنے ناموں کی پھٹیاں لگانے پر ہے۔ پنجاب حکومت نے اگلے مالی سال کے لیے جن 13 بڑے منصوبوں کی منظوری دی ہے ان میں نواز شریف کے نام پر سات اور مریم نواز کے نام پر چھ منصوبے رکھے گئے ہیں۔

حکومتی ذرائع  اس حرکت کا دفاع کرتے ہوئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام کا حوالہ دیتے ہیں، تاہم وہ بھول جاتے ہیں کہ بھٹو کی شہید بیٹی اور مریم کے سیاسی قد کاٹھ میں زمین آسمان کا فرق ہے، ویسے بھی انکم سپورٹ پروگرام کے ساتھ بے نظیر بھٹو کا نام ان کی شہادت کے بعد لگایا گیا تھا، ان کی زندگی میں نہیں۔ پنجاب میں تو زندہ نواز شریف اور زندہ مریم نواز کے ناموں پر ہر پراجیکٹ کا نام رکھا جا رہا ہے۔

نواز شریف کے نام پر 72 ارب روپے کے اخراجات سے پہلا سرکاری کینسر ہسپتال یعنی’’نواز شریف انسٹیٹیوٹ آف کینسر ٹریٹمنٹ اینڈ ریسرچ ‘‘بنایا جا رہا ہے۔ سرگودھا میں’’نواز شریف انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی‘‘، قصور میں’’نواز شریف انجینئرنگ یونیورسٹی‘‘، پنجاب کی 10 ڈویژنوں میں’’نواز شریف سینٹر آف ایکسی لینس فار ارلی چائلڈ ایجوکیشن‘‘ بنائے جا رہے ہیں۔ لاہور میں’’نواز شریف آئی ٹی سٹی‘‘ بنانے کے علاوہ 109 ارب روپے سے "نواز شریف میڈیکل ڈسٹرکٹ‘‘ پروجیکٹ شروع کیا جا رہا ہے۔

اسی طرح خود پرستی کا شکار مریم نواز کے نام سے پنجاب میں عوامی خدمت کے جو منصوبے شروع کیے جا رہے ہیں ان میں 9 ارب روپے سے ’’مریم نواز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی‘‘، 12 ارب سے’’مریم ہیلتھ کلینکس‘‘، 40 ارب روپے سے ’’مریم نواز راشن کارڈ پروگرام‘‘، 3ارب کا’’مریم نواز دیہی اسپتال‘‘، اور ’’مریم نواز دستک‘‘ نامی موبائل سروس کا اجرا کیا گیا ہے۔

انصار عباسی کے مطابق اگر تو یہ تمام منصوبے نواز شریف اور مریم نواز کے ذاتی پیسوں سے تعمیر کیے جاتے تو پھر انکے نام سے منسوب کیے جانے پر کوئی تنقید نہیں ہونی تھی۔ لیکن ایسا نہیں ہے چونکہ یہ تمام پروجیکٹس عوام کے ٹیکسوں سے بنائے جا رہے ہیں۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ کیا عوامی پیسہ کسی کی ذاتی تشہیر کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ مانا کہ اپنے ناموں کی تختیاں لگانے کا یہ کلچر نیا نہیں، لیکن اب اس کی شدت انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ اب تو بانی پاکستان کے نام سے منسوب ہسپتال کا نام بدلتے ہوئے بھی کسی کے ہاتھ نہیں کپکپاتے۔ پہلے کم از کم یہ پردہ باقی تھا کہ عوامی منصوبے عوام کے نام پر ہوں گے۔ اب تو بے دھڑک جناح کا نام ہٹا کر وہاں اپنا نام کندہ کیا جا رہا ہے۔

انصار عباسی کے مطابق تاریخ بتاتی ہے کہ تختی کے بغیر بھی بڑے عوامی منصوبے شروع کرنے والے لوگوں کے نام یاد رکھے جاتے ہیں۔ موٹروے کا کریڈٹ لینے کیلئے نواز شریف کو کبھی تختی نہیں لگوانا پڑی۔ 1122 کا نام آئے تو پرویز الٰہی خود بخود یاد آجاتے ہیں۔ میٹرو، اورنج لائن اور انڈر پاس منصوبے شہباز شریف کے نام کی گواہی دیتے ہیں۔ سندھ کے ہسپتالوں کا ذکر ہو تو پیپلز پارٹی کی حکومت یاد آتی ہے۔ لیکن چھچھورا پن یہ ہے کہ پنجاب میں محسن نقوی کے دور میں شروع کردہ ستھرا پنجاب پروجیکٹ کا نام بدل کر صاف ستھرا پنجاب رکھنے کے بعد کوڑے کے کنٹینرز پر مریم نواز کی بڑی بڑی تصویریں چسپاں کر دی گئی، یعنی خدمت نہیں بلکہ تختی حاکموں کا اصل مقصد بن گئی ہے۔

انصار عباسی کہتے ہیں کہ’’صوبہ مریم و نواز‘‘ میں پیسہ عوام کا لگایا جا رہا ہے، لیکن پھٹیاں صرف باپ اور بیٹی کہ نام کی لگ رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 19(A) ہر شہری کو حق دیتا ہے کہ وہ جان سکے کہ ریاستی وسائل کہاں اور کیسے استعمال ہو رہے ہیں۔ کیا عوام کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ سوال کریں کہ انکے پیسوں سے بننے والے ادارے آخر ایک ہی خاندان کے نام سے کیوں منسوب کیے جا رہے ہیں؟ کیا یہ جمہوریت کے شایانِ شان حرکت ہے؟ عدلیہ اور دیگر ریاستی اداروں کو اس رجحان پر نوٹس لینا چاہیے۔ اگر آج اس عمل کو چیلنج نہ کیا گیا تو کل کوئی اور حکومت آئے گی اور وہ انہی منصوبوں پر اپنا نام لگا دے گی۔ اس حرکت سے ایک ایسا دروازہ کھل رہا ہے جو بند نہ کیا گیا تو جمہوری عمل محض ایک برانڈنگ کمپین بن کر رہ جائے گا۔ مریم نواز کو چاہیے کہ نیک نیتی کیساتھ عوام کی خدمت کریں، اور شوبازی سے پرہیز کریں کیونکہ کل کو آنے والی حکومت یہ تختیاں تو اُتار ہی دے گی۔

Back to top button