9 مئی کے حملوں کا فیض حمید کے کورٹ مارشل سے کیا تعلق ہے؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ نومبر 2022 میں عمران خان پر قاتلانہ حملے کے بعد 9 مئی جیسا کوئی واقعہ نہیں ہوا تھا لیکن مئی 2023 میں جب عمران کو گرفتار کیا گیا تو ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملے شروع ہو گئے۔ بنیادی وجہ یہ تھی کہ نومبر 2022 میں فیض حمید کو آرمی چیف لگنے کی امید تھی اس لیے وہ عمران کی خاطر آخری حد تک نہیں گئے لیکن مئی 2023 میں چونکہ وہ فارغ ہو چکے تھے لہذا انقلاب کا منصوبہ بنایا گیا جسے فوجی حلقوں میں بغاوت کی سازش قرار دیا جاتا ہے۔ آج فیض حمید اسی سازش کے نتیجے میں کورٹ مارشل کا سامنا کر رہے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ اگر فوج نے 9 مئی کے جرم میں اپنے سابق ڈی جی آئی کو نہیں چھوڑا تو کیا وہ عمران خان اور اس کی پارٹی کے باقی ذمے داروں کو معاف کر دے گی؟
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ عمران پر 3 نومبر 2022کو وزیر آباد میں قاتلانہ حملہ ہوا تھا جس میں وہ زخمی ہو گئے تھے‘ وہ خان کی زندگی کا مشکل ترین دن تھا لیکن اس روز کارکنوں کا کوئی ری ایکشن سامنے نہیں آیا‘ چند شہروں کے چند مقامات پر تھوڑے بہت احتجاج ہوئے اور با۔ لیکن چھ ماہ بعد 9 مئی 2023 کو پی ٹی آئی کے کارکنوں نے دو سو فوجی تنصیبات اور مقامات پر حملے کر دیے‘ ان کی بے حرمتی بھی کی اور انھیں آگ بھی لگائی‘ کیا یہ بات حیران کن نہیں کہ لیڈر پر قاتلانہ حملہ ہو اور وہ اس کی ذمے داری آرمی چیف‘ ڈی جی آئی اور ڈی جی سی پر ڈال دے۔ مگر کوئی کارکن باہر نہ نکلا۔ لہذا یہ کیسے ممکن ہے کہ 9 مئی کو عمران کی صرف گرفتاری پر کارکن بپھر جائیں اور ملک بھر میں حساس مقامات پر حملے کر کے آگ لگا دیں۔
جاوید چوہدری سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ سب حیران کن نہیں؟ اگر احتجاج‘ حملے اور آگ لگانے کا کوئی مناسب دن تھا تو وہ 3 نومبر کا روز تھا‘ اس دن عمران پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا جبکہ 9 مئی کو انھیں صرف گرفتار کیا گیا تھا‘ کارکن اس دن کیوں بپھر گئے؟ کیا کوئی مجھے یہ باریک نقطہ سمجھا سکتا ہے! میرے خیال میں وجہ سادھی بھی تھی اور سیدھی بھی۔ 29 نومبر کو آرمی چیف کی تقرری ابھی باقی تھی اور جنرل فیض حمید کو اپنا داؤ لگنے کی امید تھی‘ فیض نے آرمی چیف بننے کے لیے مریم نواز کے سمدھی چوہدری منیر کو بھی نواز شریف کے پاس بھجوایا تھا جس نے ان کی باقاعدہ سفارش کی اور یہ پیغام بھی دیا تھا کہ میں ماضی کی تمام غلطیوں کا سود سمیت ازالہ کروں گا۔ نواز شریف کے ایک قریبی دوست سے بھی سفارش کرائی گئی تھی مگر میاں صاحب اپنا فیصلہ کر چکے تھے۔ بہرحال قصہ مختصر عمران پر قاتلانہ حملے تک جنرل فیض کو چیف بننے کی توقع تھی لہٰذا انھوں نے کسی قسم کی غلطی نہیں کی مگر جب جنرل عاصم منیر کی تقرری فائنل ہو گئی تو یہ کھل کر سامنے آ گئے جس کے بعد عمران نے 26 نومبر 2022 کو ٹانگ پر پلستر کے ساتھ لانگ مارچ بھی کیا لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ جنرل عاصم منیر کی تقرری کے بعد جنرل فیض نے 10 دسمبر 2022 کو ریٹائرمنٹ لے لی‘ موصوف ریٹائر ہو گئے مگر ان کی خواہشوں اور جذبہ انتقام نے ریٹائر ہونے سے انکار کر دیا اور وہ خان کے خفیہ مشیر بن گئے‘ فوج کی روایت ہے آرمی چیف بننے سے قبل فہرست میں شامل تمام امیدوار پورا زور لگاتے ہیں لیکن جب کوئی ایک کام یاب ہو جاتا ہے تو پھر دوسرے اس فیصلے کو قبول کر لیتے ہیں‘ اسے مبارک باد دیتے ہیں اور ریٹائرمنٹ لے کر چپ چاپ گھر چلے جاتے ہیں‘ نیا چیف بھی پرانی کدورتیں بھلا کر آگے بڑھ جاتا ہے‘ اس بار بھی یہی ہوا‘ جنرل عاصم منیر نے جنرل فیض حمید کے ماضی کو کھلے دل کے ساتھ بھلا دیا لیکن جنرل فیض نہیں بھولے‘ وہ جذبہ انتقام میں اندھے ہو گئے اور انھوں نے عمران کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کے چیف منصوبہ ساز کی حیثیت سے وہ کر دیا جس کا نتیجہ 9 مئی کی شکل میں نکلا۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ فیض حمید فوجی انقلاب لانے کی کوشش میں تھے تا کہ آرمی چیف فارغ ہو جائے اور حکومت کے خاتمے کے بعد عمران دوبارہ وزیراعظم بن کر انہیں آئی ایس آئی چیف لگا دیں جس کی آئین میں گنجائش موجود ہے۔
جاوید چوہدری کے مطابق 9 مئی کے تمام حملے باقاعدہ منصوبے کے تحت ہوئے جن کا مرکزی ٹارگٹ فوجی تنصیبات تھیں۔ اس روز پی ٹی آئی کے عام کارکنوں نے فوج کی ان تنصیبات پر بھی حملے کیے جن کے بارے میں فوج کے اپنے لوگ بھی نہیں جانتے تھے۔ لاہور کے کور کمانڈر کے گھر کی لوکیشن کتنے لاہوریوں کو پتا ہو گی؟ سی ایس ڈی‘ فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر‘ چک درہ کے ایف سی فورٹ‘ آرمی ملٹری ہسٹری انسٹی ٹیوٹ‘ اے ایف آئی سی‘ گوجرانوالہ کینٹ کے راہوالی گیٹ‘ مردان کے پنجاب رجمنٹل سینٹر اور جی ایچ کیو کے گیٹس کے بارے میں عام کارکنوں کو کیسے علم ہوا؟ یہ ساری لوکیشنز اور ان کی حساسیت سے صرف اندر کے لوگ واقف تھے اور جنرل فیض سے زیادہ اندر کا بندہ کون ہو سکتا تھا لہٰذا جنرل فیض نے اس فساد میں عمران کی سہولت کاری کی‘ انھیں اس سے قبل کئی بار سمجھانے کی کوشش بھی کی گئی تھی‘ انھیں ریٹائرمنٹ کے بعد سہولت کاری کرنے والے آفیسرز کے انجام کے بارے میں بھی بتایا گیا لیکن موصوف باز نہ آئے اور یوں سانحہ 9 مئی ہو گیا۔
جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ ہمیں یہاں یہ ماننا ہو گا 9 مئی پاکستان کا نائن الیون تھا جس نے ملک کے اندر بھی اسی طرح ہر چیز بدل کر رکھ دی جس طرح نائن الیون نے پورے امریکا کو بدل دیا۔ افواج پاکستان کو 9 مئی میں اپنے لوگوں کی انوالومنٹ کا اندازہ تھا چناں چہ انتہائی سینئر لیول کے آفیسرز تک کو فارغ کر دیا گیا‘ ان میں کور کمانڈر لاہور بھی شامل تھے جب کہ درجنوں بریگیڈیئرز‘ کرنل اور میجرز بھی اس فہرست میں موجود ہیں‘ بہرحال قصہ مزید مختصر کہ 9 مئی کو سال گزر گیا‘ اس دوران عدالتوں نے بھی انتشار پھیلانے والوں کا کیس کسی سمت نہیں لگنے دیا اور فوج بھی پیچھے نہیں ہٹی‘ عمران کو عدالتوں نے بار بار ضمانت دی‘ ان کی سزائیں بھی معاف ہوئیں اور وہ سائفر‘ توشہ خانہ اور عدت میں نکاح جیسے سنگین مقدموں سے بھی رہا ہو گئے۔ لیکن اس کے باوجود وہ جیل سے باہر نہ آ سکے‘ ایسا محسوس ہوتا تھا عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان عمران پر باقاعدہ جنگ چل رہی ہے‘ عدالتیں انھیں شام سے پہلے گھر دیکھنا چاہتی ہیں جب کہ ریاست آخری گولی اور آخری جوان تک انھیں جیل میں رکھنا چاہتی ہے‘ یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن پھر 22 جولائی 2024کو پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹریٹ پر چھاپا پڑا‘ رؤف حسن گرفتار ہو گئے۔ رؤف نے چند گھنٹے بھی نہ لگائے اور یوں تمام راز کھل گئے‘ چھاپے کے دوران کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ قابو میں آ گئے۔ رؤف حسن کے موبائل بھی مل گئے جس کے بعد جنرل فیض‘ ان کے تین ساتھی بریگیڈئیر (ر) غفار‘ بریگیڈئیر (ر) نعیم اور کرنل( ر) عاصم بھی سامنے آ گئے اور عمران کا جیل کا نیٹ ورک بھی‘ جنرل فیض کو حراست میں لے لیا گیا‘ ان سے ملنے والی معلومات کی روشنی میں مزید لوگ سامنے آئے‘ یہ بھی گرفتار ہوئے اور معاملات کھلتے چلے گئے‘ آخری اطلاعات کے مطابق جنرل فیض کے کورٹ مارشل کی تیاری ہو رہی ہے جس کے بعد یہ پاکستانی تاریخ کے پہلے سابق ڈی جی آئی ایس آئی ہوں گے جن کا کورٹ مارشل ہوگا‘ مجھے محسوس ہوتا ہے انھیں فوج میں بغاوت پھیلانے‘ اختیارات کے ناجائز استعمال اور ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے جرائم میں سزا ہو جائے گی۔
پاکستان انڈیا کی جانب سے چلائے گئے میزائیل کیوں نہیں روک پایا؟
چناچہ سوال یہ ہے کہ اگر فوج نے 9 مئی کے جرم میں اپنے سابق ڈی جی آئی کو سزا دے دی‘ تو کیا وہ عمران خان اور اس کی پارٹی کے باقی لوگوں کو معاف کرے گی؟ جاوید چوہدری کے بقول عمران خان اور انکے سدھائے ہوئے ساتھی اس قدر خطرناک ہیں کہ ان کے ہاتھ سے نہ تو کسی کی عزت محفوظ ہے اور نہ ہی شہداء کی یاد گاریں‘ کیا ایسے لوگوں کو ایک اور 9 مئی کا چانس دینا چاہیے؟ میرا خیال ہے یہ نہیں ہو سکے گا اگر جنرل فیض حمید کو اپنی غلطیوں کا تاوان ادا کرنا پڑ رہا ہے تو پھر بچت عمران کی بھی نہیں ہو گی اور اگر کسی نے انجام کے راستے میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی تو اسے بھی تیاری کر لینی چاہیے‘ میرا نہیں خیال اب کوئی ذمے دار احتساب کی چکی سے بچ سکے گا اور اگر یہ لوگ بچ گئے تو پھر یہ ملک نہیں بچ سکے گا۔