فوجی طاقت کے اعتبار سے اسرائیل زیادہ طاقتور ہے یا ایران ؟

اسرائیل کی جانب سے ایران کی عسکری و جوہری تنصیبات پر تابڑ توڑ حملوں اور ایران کی جانب سے تل ابیب پر میزائلوں کی بارش نے مشرق وسطیٰ میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ ایسے میں عالمی سیاسی و عوامی حلقوں میں سب سے زیادہ یہ سوال زیر بحث ہے کہ ایران اور اسرائیل میں سے عسکری اعتبار سے زیادہ طاقتور کون ہے؟
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق ایران کے پاس عددی طور پر اسرائیل سے زیادہ افرادی قوت، زمینی افواج اور بحریہ موجود ہیں، تاہم اسرائیل ٹیکنالوجی فضائی طاقت اور جدید دفاعی نظام میں ایران سے بہت آگے ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایران، اسرائیل سے بہت بڑا ملک ہے اور اس کی آبادی اسرائیل سے دس گنا زیادہ ہے۔ جہاں ایران کی آبادی اسرائیل سے کہیں زیادہ ہے اسی طرح ایران کے حاضر سروس فوجی بھی اسرائیل کے مقابلے میں تقریباً چھ گنا زائد ہیں۔ ایران کے فعال فوجیوں کی تعداد چھ لاکھ دس ہزار جبکہ اسرائیل کے ایسے فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار ہے۔ تاہم اسرائیل کو ایڈوانس ٹیکنالوجی اور بہترین جدید طیاروں سے لیس فضائیہ کی وجہ سے ایران پر برتری حاصل ہے۔اسرائیل کے پاس 241 لڑاکا طیارے اور 48 تیزی سے حملہ کرنے والے ہیلی کاپٹر موجود ہیں جبکہ ایران کے پاس جنگی طیاروں کی تعداد 312 ہے اور اس کے بیڑے میں صرف 34 جنگی ہیلی کاپٹر ہیں۔
اسرائیل اور ایران کی عسکری قوت کو دیکھا جائے تو گلوبل فائر پاور انڈیکس میں ایرانی فوج کو دنیا میں 16ویں نمبر پر رکھا گیا ہے جبکہ اسرائیل 15ویں نمبر پر آتا ہے۔ اسرائیل کا دفاعی بجٹ بھی ایران سے کئی گنا زائد ہے۔اسرائیل اپنے جنگی بجٹ پر 27 ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کرتا ہے جبکہ ایران کا دفاعی بجٹ صرف 10 ارب ڈالر کے قریب ہے۔
اسرائیل اس وقت جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہے ۔اسرائیل کی فضائیہ کے پاس ایف 35، ایف 16 اور ایف15 سمیت 340 فائٹر جیٹ اور 46 اٹیک ہیلر کاپٹر ہیں ،جو اسے ایران پر فضائی برتری دیتی ہے۔اس کے برعکس ایران کے پاس 312 پرانی ساخت کے امریکی اور روسی لڑاکا طیارے ہیں جبکہ 34 جنگی ہیلی کاپڑ ہیں ۔ایران کے لڑاکا طیاروں میں ایف فور، ایف فائیو،ایف 7، ایف 14اور روسی ساختہ سکوئی اور کچھ مگ 29 شامل ہیں۔
تاہم فضائی صلاحیتوں میں اسی کمی کو ایران نے اپنے میزائل پروگرام کے ذریعے پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ایران کے پاس 300 کلومیٹر کی رینج والے شہاب ون سے لے کر 25سو کلومیٹر تک مار کرنے والا سومار کروز میزائل ہے جبکہ ہائپر سونک الفتح بیلسٹک میزائل بھی میزائل نظام کا حصہ ہے ۔اسرائیل اپنے میزائل پروگرام پر تبصرہ نہیں کرتا لیکن دیگر دستیاب معلومات کے مطابق اسرائیل کے پاس 250 کلومیٹر کی رینج والے ڈیلائلا میزائل سمیت ساڑھے 6 ہزار کلومیٹر تک تک مار کرنے والا جریکو 3میزائل ہے۔
ایران کے پاس ڈرونز کی بھی ایک بڑی تعداد موجودہے، جس میں شہید 129 اور شہید 136 شامل ہیں، جو اسرائیل دفاعی نظام کو ناقص بنانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں جبکہ اسرائیل کے پاس ہیرون اور ہیروپ نامی ڈرونز ہیں ، جو انٹیلیجنس سمیت براہ راست حملوں کےلیے استعمال کیےجاتے ہیں۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان حالانکہ تقریباً 2152 کلومیٹر کا زمینی فاصلہ ہے لیکن 3 اپریل اور اکتوبر 2024 میں ایران نے اسرائیل پر میزائل حملہ کر کے اپنے میزائل اور ڈرونز پروگرام کی افادیت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ ایران نے اسرائیل تک اپنے میزائل پہنچا کر یہ ثابت کر دیا تھا کہ ایران عرصہ دراز سے اپنے جس میزائل پروگرام پر کام کر رہا ہے اس میں کافی ترقی ہوچکی ہے
فضائی دفاعی نظام کی بات کی جائے تو ایران کے پاس روسی ساختہ ایس 300 میزائل سمیت مقامی طورپر تیار کردہ باور 373 سسٹم بھی ہے جبکہ حال ہی کم فاصلے اور کم اونچائی والے آذرخش کو بھی دفاعی نظام کا حصہ بنایا گیا ہے۔اس کے برعکس اسرائیل کا فضائی دفاعی نظام 3 تہوں پر مشتمل ہے ، جن میں ایرو سسٹم ، ڈیوڈ سلنگ، اور آئرن ڈوم شامل ہے جن کاشمار دنیا کے بہترین سسٹم میں کیا جاتا ہے۔
بحری صلاحیتوں کی بات کی جائے تو ایران کے پاس 17 ٹیکٹیکل آبدوزوں سمیت ، 68 جنگی بحری جہاز، پیٹرول بوٹس، 7 کورویٹس اور 12 لینڈنگ شپس موجود ہیں جبکہ اسرائیل کے پاس 5 آبدوزیں اور 49 جنگی جہاز ہیں۔
حاضر سروس فوجی قوت کےلحاظ سے ایران کا اسرائیل پر پلڑا بھاری ہے۔ ایران کے پاس پاسداران انقلاب کے 1لاکھ 90 ہزار گارڈز سمیت 6 لاکھ 10 ہزار فعال فوجی موجود ہیں جن میں 3,50,000 فوج، 1,90,000 پاسداران انقلاب ، 18,000 بحریہ، 37,000 فضائیہ اور 15,000 فضائی دفاع کے اہلکار شامل ہیں۔ جبکہ اسرائیل کی حاضر سروس فوجیوں کی تعداد 1لاکھ 70 ہزار ہے۔جن میں 1,26,000 بری فوج، 9,500 بحریہ اور 34,000 فضائیہ سے منسلک ہیں۔ اسرائیل کا ریزرو فوجی نظام زیادہ وسیع ہے جس میں 4 لاکھ 65ہزار اہلکار شامل ہیں۔
سائبر وار فیئر صلاحیتو ں میں اسرائیل کو دنیا کے 5 بڑے ممالک میں شمار کیا جاتا ہے، جس کے پاس جی پی ایس جامنگ، ڈرون انٹرسیپشن، اور سائبر حملوں کی صلاحیت موجود ہے۔اس کےبرعکس ایران کی اس میدان میں صلاحیتیں محدود ہیں۔
کیا اسرائیل پر میزائیل حملوں کے بعد ایران امریکہ پر حملے کرے گا ؟
دفاعی ماہرین کے مطابق 2024 میں اسرائیل کا فوجی بجٹ 65 فیصد اضافے کے ساتھ 46.5 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے جو کہ 1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد سب سے بڑا سالانہ اضافہ ہے۔ اس کے برعکس ایران کا فوجی بجٹ 10 فیصد کمی کے ساتھ 7.9 ارب ڈالر رہا۔اسرائیل، مشرقِ وسطیٰ میں چھٹا اور دنیا بھر میں پندرھواں بڑا اسلحہ درآمد کرنے والا ملک ہے، جس کے 66 فیصد ہتھیار امریکہ اور 33 فیصد جرمنی سے آتے ہیں۔اس وقت ایران کے پاس 10,513 ٹینک، 6,798 توپیں، اور 640سے زائد بکتر بند گاڑیاں موجود ہیں جبکہ اسرائیل کے پاس 400 ٹینک، 530 توپیں اور 1,190 بکتر بند گاڑیاں ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ایران کی بڑی فوجی تعداد اور زمینی تنصیبات کے باوجود، اسرائیل کی ٹیکنالوجی، فضائی برتری، اور دفاعی نظام اسے ایک مضبوط پوزیشن میں رکھتے ہیں۔ تاہم دونوں ممالک کی قوتیں مختلف انداز میں متوازن ہیں، جس کا مطلب ہے کہ براہِ راست جنگ کی صورت میں نتائج پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔