حکومتی ادارے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ روکنے میں ناکام کیوں؟

 

 

 

منی لانڈرنگ کے ذریعے قومی خزانے کو کھربوں روپے کا چونا لگانے والے ریاست دشمن عناصر بے نقاب ہو گئے، تاہم ملکی معیشت کو کھوکھلا کرنے والی سمگلنگ، ٹیکس چوری اور تجارت کے نام پر منی لانڈرنگ میں ملوث عناصر کے سامنے آنے کے باوجود حکومت انھیں انجام تک پہنچانے میں یکسر ناکام دکھائی دیتی ہے۔

 

ناقدین کے مطابق برسوں سے بندرگا ہوں اور ٹرانزٹ ٹریڈ کے نام پر ہونے والی جعلسازیوں، ایران اور افغانستان کے راستے سامان کی غیر قانونی آمد و رفت کے ذریعے بڑے سرمایہ کار قومی خزانے کو سالانہ اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ تاہم حیرت انگیز طور پر ان سب کے خلاف قائم ہونے والے منی لانڈرنگ کیسز آج تک نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے۔ ان ریاست دشمن عناصر کو سزا ملنا تو درکنا ادارہ جاتی پالیسیوں نے ایسے مافیاز کیلئے آسانیاں پیدا کر رکھی ہیں اور وہ سرعام منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کے ذریعے قومی خزانے پر شب خون مارتے نظر آتے ہیں۔

روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں ٹریڈ بیسڈ منی لانڈرنگ یعنی تجارت کے نام پر منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کے ذریعے ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے والے طاقتور گروہ آج بھی اداروں کی گرفت سے باہر ہیں۔ ایف بی آر اور کسٹمز ٹھوس شواہد کے باوجود ان مافیاز کے خلاف حقیقی معنوں میں کوئی بھی کارروائی کرنے میں ناکام ہیں یہاں تک کہ ان کو قانون کے کٹہرے میں لانے سمیت ان کے اثاثے تک ضبط نہیں ہو سکے۔ تاہم یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پاکستان میں ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ ہوتی کیسے ہے۔ ماہرین کے مطابق سب سے زیادہ ٹیکس چوری اور منی لانڈرنن درآمدات میں ہوتی ہے جہاں بڑے تاجر اور کمپنی مالکان انڈر انوائسنگ کے ذریعے مال کی قیمت کم ظاہر کرتے ہیں اور اربوں روپے کی ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ دوسری سطح پر جعلی کمپنیاں رجسٹرڈ کروا کر ایران اور افغان ٹرانزٹ سے آنے والے سامان کو بوگس انوائسز کے ذریعے ظاہر کیا جاتا ہے اور یہ انوائسز اربوں کی سیلز ٹیکس چوری کیلئے استعمال ہوتی ہیں جبکہ بڑے صنعتکار ان دونوں طریقوں کو یکجا کر کے سمگلنگ اور ٹیکس چوری سے بنائے گئے کالے دھن کو مختلف کاروباروں میں لگا کر مزید منافع کماتے ہیں۔

اس حوالے سے سامنے آنے والی سرکاری انٹیلی جنس رپورٹس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک سے زرمبادلہ کی تقریباً 70 فیصد غیر قانونی منتقلی ٹریڈ بیسڈ منی لانڈرنگ کے ذریعے کی جا رہی ہے۔ رپورٹ میں بندرگاہوں پر درآمدات کے دوران جعلسازی ، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں کمرشل اور پرتعیش سامان کی ترسیل، اور ایران سے زمینی و سمندری راستوں کے ذریعے ڈیزل ، پٹرول اور کھانے پینے کی اشیا کی سمگلنگ اس معاشی تباہی کی بنیادی وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ حکومت اور مقتدر اداروں نے 2024ء میں فیصلہ کیا تھا کہ اس مافیا کے خلاف اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت مقدمات بنا کر اثاثے ضبط کیے جائیں گے۔ جس کیلئے کسٹمز انٹیلی جنس میں خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں ۔ اس حوالے سے کسٹمز انٹیلی جنس ٹیموں کو ایف آئی اے کے ماہرین سے خصوصی تربیت دلوائی گئی اور 100 سے زائد کیسز تیار کرنے کی ہدایات بھی جاری ہوئیں۔ لیکن 2025ء کے آخر تک یہ مقدمات نہ تو مکمل ہو سکے اور نہ ہی عدالتوں میں پیش ہوئے۔ اس دوران حیران کن طور پر ڈائر یکٹوریٹ جنرل کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کو ہی ری اسٹرکچر کر کے غیر فعال کر دیا گیا، اور اس کی نفری کو دیگر شعبوں میں بھیج دیا گیا۔ جس سے سارا بنا بنایا کھیل ہی بگاڑ کا شکار ہو گیا اور منی لانڈرنگ میں ملوث مافیاز مزید زوروشور سے اپنی مذموم کارروائیوں میں مشغول ہو گئے۔

 

ایف بی آر ذرائع کے مطابق  کمزور تفتیش ، قوانین شہادتوں کی خامیوں اور مہنگے وکلا ملزمان کیلئے ڈھال بن جاتے ہیں اور ان کے عدالتوں سے ریلیف حاصل کرنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جبکہ اس کے برعکس کسٹمز حکام کے پاس اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت مقدمات بننے کی صورت میں ملزمان کے اثاثے بحق سرکار ضبط کرنے کے اختیارات کے باوجود ادارہ جاتی کمزوری اور سیاسی دباؤ کے باعث اس حکمت عملی پر بھی عملدرآمد ممکن نہیں ہو پاتا جس کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان میں ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ جب تک ایف بی آر کسٹمز اور ایف آئی اے جیسے اداروں کے درمیان مکمل کو آرڈی نیشن، ڈیٹا انٹیگریشن اور عدالتی ثبوتوں کے معیار کو جدید بین الاقومی سطح پر نہیں لایا جا تا تب تک اربوں کھربوں روپے کے یہ مالیاتی جرائم نہ تو رک سکتے ہیں اور نہ ہی قو می خزانے میں حقیقی ریکوری ممکن ہو سکتی ہے۔

 

 

Back to top button