جامعہ کراچی نے جسٹس جہانگیری کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا

اسلام آباد ہائیکورٹ کے عمراندار جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کی جعلی ڈگری کا معاملہ اپنے انجام کو پہنچتا نظر آتا ہے۔ جامعہ کراچی نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ایل ایل بی کی سند منسوخ کر کے نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔کراچی یونیورسٹی کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری منسوخ کرنے کی تصدیق کے بعد جسٹس جہانگیری کی نااہلی یقینی ہو گئی ہے۔
خیال رہے کہ جامعہ کراچی باقاعدہ طور پر جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ایل ایل بی کی ڈگری منسوخ کرتے ہوئے اسے کے نتیجے سے دستبردار ہوگئی ہے۔ اس حوالے سے یونیورسٹی کے رجسٹرار عمران احمد صدیقی کی جانب سے ڈگری کی منسوخی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے ۔جامعہ کراچی کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ مجاز اتھارٹی کی منظوری کی تعمیل میں سینڈیکیٹ کے 31 اگست 2024 کے اجلاس کی قرارداد 6 کے تحت کمیٹی کی تجاویز کی روشنی میں طارق محمود ولد قاضی محمد اکرم ناجائز ذرائع کے استعمال میں ملوث پائے گئے۔ جس کے بعد نہ تو انہیں 3 سال کے لیے کسی بھی کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ ملے گا اور نہ ہی وہ وہ تین سال تک کسی امتحان میں شریک ہو سکیں گے۔ نوٹیفکیسن میں ایک بار پھر تصدیق کی گئی ہے کہ طارق محمود جہانگیری کبھی بھی اسلامیہ لا کالج کراچی کے طالب علم نہیں رہے اسی وجہ سے اسسٹنٹ رجسٹرار نے ان کا ایل ایل بی انرولمنٹ نمبر منسوخ کیا۔سینڈیکیٹ کی اس روداد و فیصلے پر عمل درآمد کے تحت طارق محمود جہانگیری کا ایل ایل بی کا نتیجہ اور ڈگری منسوخ کی جاتی ہے ۔
واضح رہے کہ جامعہ کراچی کی جانب سے ڈگری کی منسوخی سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے جعلی ڈگری کی بنیاد پر لمبے عرصے سے منصفی کرنے والے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کو جوڈیشل ورک سے روک دیا تھا تاہم اب سامنے آنے والی نئی پیشرفت کے بعد آنے والے دنوں میں جسٹس جہانگیری کا گھر جانا یقینی ہو گیا ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے اپنے ہی جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنے کے حکم، کراچی یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کمیٹی کی جانب سے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری کی منسوخی اور اس حوالے سے دائر درخواست کے ساتھ منسلک مضبوط دستاویزی ثبوتوں کی وجہ سے جسٹس طارق جہانگیری کی نااہلی یقینی دکھائی دیتی ہے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف جعلی ڈگری کی درخواست اعلیٰ عدلیہ میں متنازعہ درخواستیں دائر کرنے والے قانون دان میاں داؤد ایڈووکیٹ نے دائر کر رکھی ہے۔ میاں داؤد ایڈوکیٹ کے دعوے کے مطابق جسٹس طارق محمود جہانگیری کی قانون کی ایل ایل بی کی ڈگری ہی مشکوک ہے جس کی بنیاد پر وہ پہلے وکیل اور پھر جج بنے تھے۔ کراچی یونیورسٹی نے اسی بنیاد پر جسٹس جہانگیری کی قانون کی ڈگری منسوخ کر دی تھی بعد ازاں جامعہ کراچی نے جسٹس جہانگیری کی ڈگری منسوخ کرنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ میں جمع کروائے گئے جواب میں قرار دیاتھا جسٹس جہانگیری کی ڈگری کی منسوخی کا فیصلہ یونیورسٹی قوانین اور ناقابل تردید شواہد کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔
دوسری جانب اس حوالے سے میاں داؤد کا موقف ہے کہ جسٹس طارق کی وکیل بننے کی بنیادی قابلیت ایل ایل بی کی ڈگری ہی جعلی ہے جس کی بنیاد پر انہیں جج بنایا گیا تھا۔ ان کے مطابق یہ ایک غلط فیصلہ تھا جسے ٹھیک کرنا چاہیے۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری کے مطابق انہوں نے یونیورسٹی آف کراچی سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا جبکہ جج صاحب کی ٹیبولیشن شیٹ کے مطابق ان کے ایل ایل بی پارٹ ون کا انرولمنٹ نمبر 5988 امتیاز احمد نامی ایک اور شہری کا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی ایل ایل بی پارٹ ون کی مارک شیٹ پر ان کا نام طارق جہانگیری ولد محمد اکرم لکھا ہوا ہے جب کہ شناختی کارڈ کے مطابق ان کے والد کا اصل نام قاضی محمد اکرم ہے۔ میاں داؤد کے مطابق جسٹس طارق جہانگیری کی تعلیمی دستیاویزات بھی دو نمبر ہیں۔ اسلامیہ کالج کے پرنسپل نے تحریری طور پر تصدیق کی ہے کہ طارق محمود ولد محمد اکرم 1984 سے 1991 تک ان کے کالج کے طالب علم ہی نہیں تھے، جب کہ کنٹرولر امتحانات کے مطابق ایک انرولمنٹ نمبر دو افراد کوالاٹ ہو ہی نہیں سکتا۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی یونیورسٹی کی جانب سے اپنی بنیادی ڈگری منسوخ ہو جانے کے بعد جسٹس طارق جہانگیری کا جج کی کرسی پر برقرار رہنا ممکن نہیں اور ان کے دن پورے ہو گئے ہیں
جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس منصور کو جھنڈی کیسے دکھائی ؟
یاد رہے کہ جسٹس طارق جہانگیری کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے اور انہیں پی ٹی آئی کے دور حکومت میں تب کے صدر عارف علوی نے جج مقرر کیا تھا۔انہیں تحریک انصاف کا حمایتی جج تصور کیا جاتا ہے وہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر تب مقبول ہوئے جب انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بانی پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری سے روک دیا تھا۔ واضح رہے کہ جسٹس جہانگیری ان 5 ججوں میں شامل تھے جنہوں نے جسٹس ڈوگر کے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلے کو چیلنج کیا تھا، وہ ان ججوں میں بھی شامل ہیں جنہوں نے گزشتہ سال سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ کر انٹیلی جنس ایجنسیوں کی عدالتی معاملات میں مداخلت کی شکایت کی تھی۔یہ تنازع اس وقت ابھرا جب جسٹس جہانگیری اسلام آباد کی تینوں نشستوں پر مبینہ انتخابی دھاندلی سے متعلق پٹیشنز کی تیز رفتار سماعت کر رہے تھے۔
