پاکستان کو ٹرمپ سے دوستی میں محتاط کیوں رہنا چاہیے؟

ہائبرڈ نظام حکومت چلانے والی پاکستانی فوجی اور سیاسی قیادت تیزی کے ساتھ امریکہ کے قریب ہوتی نظر آتی ہے۔ ٹرمپ دوبارہ برسر اقتدار آنے کے بعد سے پاکستانی قیادت پر دل و جان سے فدا ہیں، پاکستانی لیڈر شپ بھی ان کی خوشنودی میں آخری حدیں کراس کر رہی ہے۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی قیادت کو یاد رکھنا چاہیے کہ صدر ٹرمپ دوستی اور دشمنی میں مستقل مزاج نہیں۔ وہ بنیادی طور پر انتہائی غیر مستقل مزاج ہیں اور کسی بھی لمحے کچھ بھی کر سکتے ہیں لہذا ان پر زیادہ بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، خصوصا جب پاکستان امریکہ کے تین بڑے مخالفین یعنی چین، روس اور ایران کے ساتھ بھی دوستی نبھا رہا ہے۔
تجزیہ کار یاد دلاتے ہیں کہ یہ زیادہ پُرانی بات نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی کو اپنا ’بہترین دوست‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ لیکن جب ان کا موڈ خراب ہوا تو انھوں نے انڈیا پر 50 فیصد ٹیرف عائد کردیا۔ بنیادی وجہ یہ تھی کہ نریندر مودی نے صدر ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے سے انکار کر دیا جبکہ پاکستان نے فورا انہیں نامزد کر دیا۔ تب سے بھارتی وزیراعظم مودی صدر ٹرمپ سے دور اور پاکستانی فوجی اور سیاسی قیادت ان کے قریب تر ہو چکی ہے۔ آج کل ٹرمپ مختلف ٹیرف عائڈ کر کے مودی کو ڈنڈا دے رہے ہیں جس سے بھارت کو بھاری معاشی نقصان کا سامنا ہے۔ اس لیے یہ کہا جائے تو بے جانا ہوگا کہ جس روز مودی نے سرنڈر کر دیا اسی روز ٹرمپ بھارت کے نزدیک اور پاکستان سے دور ہونا شروع کر دیں گے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ صدر یہ بھی کہا کرتے تھے کہ روسی صدر پوٹن سے ان کے اچھے تعلقات ہیں لیکن بعد میں وہ یوکرین کے معاملے پر صدر پوٹن پر کڑی تنقید کرتے ہوئے نظر آئے۔ ابھی چند ماہ پہلے تک ایکس کے مالک ایلون مسک صدر ٹرمپ کے بہترین دوست اور ان کی کابینہ کے مرکزی رکن ہوا کرتے تھے لیکن اب دونوں ایک دوسرے کے خلاف الزامات لگاتے نظر آتے ہیں۔ لہذا صدر ٹرمپ کی سیاست اور انکی ذات پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی قیادت کو امریکی صدر کے حوالے سے احتیاط برتنا ہوگی اور اپنے سارے انڈے ایک ٹوکری میں ڈالنے سے پرہیز کرنا ہوگا۔
ٹرمپ کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ ایسے ممالک کے ساتھ کام کرنا پسند کرتے ہیں جن کے رہنماؤں سے ان کا ذاتی تعلق ہو، جو ان کی انتظامیہ کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے وعدوں کو پورا کر سکیں۔
ان کے مطابق جب تک پاکستان صدر ٹرمپ کے سامنے اپنی قدر برقرار رکھے گا تب تک یہ تعلق مضبوط رہے گا لیکن اگر کبھی ٹرمپ کو محسوس ہوا کہ پاکستان اپنے وعدے پورے نہیں کر رہا یا ان کے کام کا نہیں رہا تو وہ پاکستان کے لیے اپنا رویہ تبدیل کرنے میں ایک منٹ بھی نہیں سوچیں گے۔
اس لیے سابق پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی بھی پاکستان کو احتیاط برتنے کا مشورہ دیتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں پاک امریکہ تعلقات کے اتار چڑھاؤ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے محتاط رہنے کی ضرورت ہے، ان تعلقات میں ماضی میں بھی بہت بار بہتری بھی دیکھی گئی اور پھر گراوٹ بھی دیکھی گئی۔ آج کی دنیا میں ریاستوں کے باہمی تعلقات باہمی مفادات پر مبنی ہوتے ہیں۔ اب ریاستی تعلقات کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر استوار کیے جاتے ہیں۔ اس لیے وہ وقت دور نہیں جب صدر ٹرمپ پاکستان کے ساتھ اپنی محبت کی قیمت وصول کرنے کا تقاضہ کریں گے۔ لہذا پاکستان کو امریکہ کیساتھ تعلقات میں ایک بیلنس برقرار رکھنا ہو گا۔
صدر ٹرمپ کے ساتھ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی حالیہ ملاقات بھی کامیاب قرار دی جا رہی ہے۔ رواں سال جون میں امریکی صدر ٹرمپ نے جنرل عاصم منیر کو ظہرانے پر مدعو کیا تھا لیکن اُس ملاقات میں شہباز شریف اُن کے ساتھ نہیں تھے۔ حالیہ ملاقات کے بعد وزیراعظم ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق یہ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی اور پاکستانی قیادت نے پاک بھارت جنگ روکنے اور قیام امن کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے اُنھیں ’مین آف پیس‘ قرار دیا ہے۔ ملاقات میں خطے کی صورتحال اور انسدادِ دہشت گردی میں تعاون پر بات کی گئی ہے۔ وزیراعظم نے دہشت گردی کے خاتمے میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کرنے پر امریکی صدر کا شکریہ ادا کیا۔
2019 کے بعد یہ پہلی موقع تھا کہ پاکستانی وزیراعظم نے وائٹ ہاوس میں امریکی صدر سے ملاقات کی۔ چھ سال قبل وزیر اعظم نے عمران خان نے امریکی صدر سے ملاقات کی تھی۔ شہباز شریف اور صدر ٹرمپ کی ملاقات کی بارے میں پاکستانی حکومت کے اعلامیے کے علاوہ زیادہ تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں لیکن سوشل میڈیا پر اس ملاقات پر بہت تبصرے ہو رہے ہیں۔ بعض افراد شہباز شریف کے ساتھ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی موجودگی پر سوال اُٹھا رہے ہیں تو بعض امریکہ کے مطالبات کی فہرست پر بات کر رہے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس ملاقات کی تصویر ایکس پر شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ ’انڈیا پہ فتح، سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ اور پاک امریکہ تعلقات میں بے مثال پیش رفت۔ 2025 کامیابیوں سے بھر پور سال ۔ ہائُبرڈ نظام کی پارٹنر شپ کی کامیابیوں کا تسلسل۔‘
صدر ٹرمپ پاکستان کے مارکیٹنگ مینیجر کیوں بن گئے؟
اس ملاقات کے بارے میں انڈیا میں بھی بات چیت ہو رہی ہے۔ سویڈن کی اپسلا یونیورسٹی کے اشوک سوین نے ایکس پر پاکستانی وزیراعظم کے ایئر پورٹ سے وائٹ ہاؤس تک جانے والے کانوائے کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’پاکستان وزیراعظم شہباز شریف کا ہی نہیں بلکہ آرمی چیف کا بھی واشنگٹن آمد پر شاندار استقبال کیا گیا۔‘ انھوں نے لکھا کہ مودی کی بےوقوفی نے عاصم منیر کو کسی بھی دوسرے آرمی چیف سے زیادہ طاقتور بنا دیا ہے۔
انھوں نے لکھا کہ ’سنہ 2019 میں جب عمران خان وائٹ ہاؤس آئے تھے تو اُن کے ساتھ تب کے آرمی چیف جنرل باجوہ وردی میں موجود تھے لیکن وہ اس دورے میں بہت نمایاں نہیں تھے بلکہ پس منظر میں تھے۔ لیکن اس کے برعکس اب عاصم منیر نمایاں ترین ہیں۔ پاکستانی صحافی سیرل المیڈا نے ایکس پر لکھا کہ ’اس ملاقات کے بارے میں افواہیں بہت ہیں، ایسی ملاقات بارے جتنی کم معلومات دستیاب ہوں گی یہ اتنی ہی زیادہ فکر مندی کی بات ہو گی۔ سینیئر صحافی نسیم زہرہ کا کہنا تھا کہ اس ملاقات کا سب سے اہم معاملہ فلسطین اور مشرقِ وسطیٰ کا ہے۔ نسیم زہرہ نے ایکس پر لکھا کہ سرمایہ کاری اور سکیورٹی کے معاملے میں پاکستان امریکہ تعلقات پہلے ہی مثبت ٹریک پر آگے بڑھ رہے ہیں۔
واشنگٹن میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا کہنا ہے کیا صدر ٹرمپ کی پاکستان سے قربت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اپنے مطلوب دہشت گردوں کو پکڑنے میں پہلی کامیابی امریکہ کو پاکستان کے طفیل ملی تھی جب کابل ایئرپورٹ حملے کے ماسٹر مائنڈ کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ حقانی کے مطابق صدر ٹرمپ کے مودی کے ساتھ تناؤ نے بھی پاکستان کو امریکہ کے قریب ہونے کا موقع دیا۔ اگر واشنگٹن کا تعلق انڈیا کے ساتھ اچھا ہوتا تو جنرل عاصم منیر اور شہباز شریف کی وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ سے ملاقات نہ ہو پاتی۔ اس کے علاوہ پاکستان اور سعودی دفاعی معاہدے کو بھی واشنگٹن میں پذیرائی ملی ہے کیونکہ ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ اب سعودی عرب کی سکیورٹی کی بھاری ذمہ داری اب امریکہ کی بجائے پاکستان اُٹھائے گا۔
