صدر ٹرمپ پاکستان کے مارکیٹنگ مینیجر کیوں بن گئے؟

 

 

 

کچھ عرصہ پہلے تک یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ جب وزیراعظم شہباز شریف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملیں گے تو وہ انہیں دنیا کا ایک عظیم رہنما قرار دے دیں گے، لیکن یہ انہونی ہو چکی ہے جس نے دنیا میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی اہمیت اور بھی زیادہ واضح کر دی ہے۔ ایسے میں یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ صدر ٹرمپ کچھ عرصے سے پاکستان کے مارکیٹنگ مینیجر کا کردار ادا کرتے ہوئے اس کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں۔ جواب میں پاکستانی سیاسی اور عسکری قیادت نے بھی ٹرمپ پر پوری طرح فدا ہوتے ہوئے ان کے لیے نوبیل امن انعام کی سفارش کر دی ہے۔

 

چہرے پر مسکراہٹیں، پُراعتماد انداز اور ایک دوسرے کے لیے تعریفی الفاظ کا استعمال۔ کیا کچھ برسوں پہلے تک کسی نے سوچا تھا کہ جب پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف اپنے ’فیلڈ مارشل‘ کے ساتھ وائٹ ہاؤس جائیں گے تو یہ مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔ کچھ برس پہلے تک ٹرمپ پاکستان پر ’دہشتگردوں کو پناہ دینے‘ کا الزام عائد کرتے تھے۔ اپنے پہلے دور صدرات میں انھوں نے اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان کو اپنا ’دوست‘ کہا تھا لیکن ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد پاکستان اور امریکہ تعلقات ایک بار پھر اُتار چڑھاؤ کا شکار ہو گئے۔ صدر بائیڈن کی حکومت میں ان کی کسی بھی پاکستانی رہنما سے فون پر بات یا وائٹ ہاؤس میں ملاقات نہیں ہوئی تھی۔

 

لیکن اگلے روز ٹرمپ پاکستان کے سیاسی اور عسکری رہنماؤں سے ملاقات سے قبل ہی شہباز شریف اور عاصم منیر کو عظیم رہنما اور بہترین شخصیات قرار دیتے ہوئے نظر آئے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شاید صدر ٹرمپ نے جان بوجھ کر اپنے سابقہ دوست نریندر مودی کو پیغام پہنچانے کے لیے ایسا کیا۔ لیکن دیگر کا کہنا ہے کہ ٹرمپ واقعی پاکستانی سویلین اور فوجی کی عادت کے بارے میں اچھے جذبات رکھتے ہیں۔ خیال رہے کہ یہ وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کی شہباز شریف سے پہلی ملاقات تھی لیکن وہ اس سے قبل فیلڈ مارشل عاصم منیر سے جون میں وائٹ ہاؤس میں ملاقات کر چکے ہیں۔

 

ایسے میں اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے سے کیا توقعات رکھتے ہیں؟ صدر ٹرمپ اور پاکستانی رہنماؤں کے درمیان ملاقات کے بعد وزیرِ اعظم ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گہا کہ شہباز شریف نے امریکی کمپنیوں کو پاکستان کے زرعی، معدنیات اور توانائی سے متعلق شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔ اس کے علاوہ خطے کی صورت حال اور انسدادِ دہشتگردی میں تعاون کی بات بھی کی گئی۔

 

صدر ٹرمپ مئی میں پاکستان اور انڈیا کی جنگ رُکوانے کا سہرا اپنے سر سجاتے رہے ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے دوران پاکستانی رہنماؤں نے پاکستان انڈیا جنگ روکنے اور قیام امن کے لیے صدر ٹرمپ کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے اُنھیں ’مین آف پیس‘ قرار دیا۔

وزیر اعظم ہاؤس کے بیان سے یہ واضح نہیں ہو رہا کہ ٹرمپ اور پاکستانی رہنماؤں نے کیا باتیں کیں، تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی ضروریات کا علم ہے اور دونوں اپنے مقاصد پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔

 

ماضی میں امریکہ اور اقوامِ متحدہ میں بطور پاکستانی سفیر خدمات انجام دینے والی ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ ’اس ملاقات سے دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید بہتری آئے گی اور یہ تعلقات بظاہر ایک نئے اور مثبت فیز میں داخل ہو رہے ہیں۔‘ تاہم انھوں نے کہا کہ ’یہ بات اب تک واضح نہیں کہ امریکہ پاکستان سے کیا چاہتا ہے کیونکہ وائٹ ہاؤس کی ملاقات کے بعد پاکستانی اعلامیے میں کچھ نہیں بتایا گیا کہ وہاں بات چیت کیا ہوئی۔‘

 

کچھ تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات میں بہتری کا اثر نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں بھی پڑے گا۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی صدر انڈیا اور پاکستان کے درمیان پرائیوٹ چینلز کے ذریعے بات چیت شروع کروا سکتے ہیں۔ انکا کہنا یے کہ ابھی امریکہ اور انڈیا کے تعلقات زیادہ اچھے نظر نہیں آتے۔ مودی کی جانب سے پاک بھارت جنگ بندی میں ٹرمپ کے کردار کو تسلیم نہ کرنے کے بعد امریکی صدر نے بھی انڈیا کے لیے روسی تیل کی خرید پر 50 ٹیرف عائد کر دیا ہے۔ لیکن کچھ تجزیہ کاروں کے خیال میں یہ جاننا ضروری یے صدر ٹرمپ کے دماغ میں کیا چل رہا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ حقیقت یہ ہو کہ انڈیا اور امریکہ کے تعلقات بہتری کی طرف جانے والے ہوں۔

پاک امریکا تجارتی معاہدے باہمی مفادات کے تحت ہوں گے : شہباز شریف

تجزیہ کار کامران بخاری کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے مشرقی محاذ اس وقت زیادہ اہم نہیں کیونکہ اسے معلوم ہے کہ انڈیا سے اسکے کیسے تعلقات ہیں۔ وقت آنے پر امریکہ دونوں ممالک کے درمیان درجہ حرارت کم بھی کروا سکتا ہے۔ ان کے مطابق امریکہ کو شاید مغربی محاذ پر پاکستان کی ضرورت پڑے۔ امریکہ کے لیے ایران ایک بڑا مسئلہ ہے اور امریکہ کے لیے یہ اچھا ہو گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر ایرانی مسئلے کا کوئی حل نکال سکے۔ بخاری کہتے ہیں کہ اس کے بدلے میں پاکستان کو بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں اور دیگر علاقوں میں تحریکِ طالبان پاکستان سے لڑنے میں مدد مل سکتی ہے۔

 

کامران بخاری کے مطابق امریکہ کو اندازہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے معاملات میں پاکستان ایم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ان خے مطابق وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ اور پاکستانی رہنماؤں کی ملاقات میں مشرقِ وسطیٰ پر ضرور بات چیت ہوئی ہوگی۔

ان کا کہنا ہے کہ میرے لیے ماننا تھوڑا مشکل ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا معاہدہ امریکہ کو آگاہ کیے بغیر ہوا ہو۔ پاکستان اور سعودی دفاعی معاہدے کے تناظر میں تو بظاہر پاکستان مشرقِ وسطیٰ میں نمایاں کردار ادا کرے گا۔ پاکستان کا یہ کردار امریکہ کے بھی کام آ سکتا ہے۔

 

Back to top button