جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس منصور کو جھنڈی کیسے دکھائی ؟

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحیٰی آفریدی نے ایک بار پھر عمرانڈو جج جسٹس منصور علی شاہ کو ان کی اوقات یاد دلا دی۔ سپریم کورٹ نے جسٹس منصور علی شاہ کے چیف جسٹس یحیٰی آفریدی سمیت پریکٹس اینڈ پروسیجرکمیٹی کے ممبران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے حکمنامے کو غیر قانونی اور کالعدم قرار دے دیا۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے عمرانڈو جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں قائم دو رکنی بینچ کے خلاف جاری حکمنامے میں قرار دیا گیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ یعنی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے کسی بھی جج کے خلاف سنگین مس کنڈکٹ کے الزام تحت کارروائی کا فورم صرف اور صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہے، آئین کا آرٹیکل 209 سپریم جوڈیشل کونسل کے علاوہ کسی بھی دوسرے فورم پر جج کیخلاف کارروائی پر قدغن لگاتا ہے،اس حوالے سے ججز کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت اعلیٰ عدلیہ کا کوئی بھی جج دوسرے ساتھی جج کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کرسکتے. جس کے بعد سپریم کورٹ نے جسٹس منصور علی شاہ کا حکمنامہ کالعدم قرار دے دیا۔
عدالتی حکمنامے میں مزید کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجرکمیٹی اور آئینی بینچوں کی تشکیل کی کمیٹی کے ممبران چیف جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی غیر پائیدار ہے اس لئے توہین عدالت کا نوٹس برقرار ہی نہیں رہ سکتا ،اس لئے اس حکمنامہ کو کالعدم قراردیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل دو رکنی ریگولر بینچ کے 21 اور 27 جنوری کے احکامات موثر نہیں ، اس لئے کمیٹی ممبران کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کالعدم قرار دی جاتی ہے،
واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان سمیت دیگر ججز کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا معاملہ اس وقت پیدا ہوا جب کسٹمز ایکٹ 1969 کی شق 221-A(2) کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران ریگولر بینچ نے مقدمات کو جزوی زیر سماعت قرار دے کر دوبارہ اپنے سامنے لگانے کی ہدایت کی تھی، مگر حکامات کے مطابق متعلقہ کیس کی فکسنگ نہ ہونے پر ریگولر بینچ نے ایڈیشنل رجسٹرارجوڈیشل نذر عباس کو شوکاز نوٹس جاری کیا اور توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کر دی تھی، جس پر نذر عباس نے اس نوٹس کے خلاف انٹر کورٹ اپیل دائر کر دی تھی۔ تاہم دوسری سماعت کے تحریری حکمنامہ میں جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے ان کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس واپس لیتے ہوئے مقدمہ سماعت کے لئے مقرر نہ کرنے پر سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرکمیٹی اور آئینی بینچوں کی تشکیل کی کمیٹی کے ممبران چیف جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی چلانے کے لئے سپریم کورٹ کے تمام ججوں پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دینے کا حکم دے دیا تھا جبکہ اس حوالے سے انتظامی حکمنامہ کے اجراء کے لئے معاملہ چیف جسٹس یحیٰی آفریدی کوہی بھجوا دیا تھا جن کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا حکم دیا گیا تھا۔
تاہم اب سپریم کورٹ نے ایک اہم آئینی اور عدالتی فیصلے میں کمیٹی ممبران کیخلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کالعدم قرار دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ آئین کے تحت کوئی بھی جج اپنے ہم منصب جج کے خلاف آرٹیکل 204 کے تحت کارروائی نہیں کر سکتا۔ آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کسی بھی جج کے خلاف بدانتظامی یا مس کنڈکٹ کے الزام پر انکوائری اور کارروائی صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی کر سکتی ہے ، کسی ریگولر بینچ کو ایسا اختیار حاصل نہیں، فیصلہ میں واضح کیا گیا کہ ریگولر بینچ کے 21 اور 27 جنوری 2025 کے احکامات اب موثر نہیں رہے کیونکہ پارلیمنٹ کی 26ویں آئینی ترمیم کے بعد ایسے مقدمات خود بخود آئینی بینچز کو منتقل ہو گئے تھے اور ریگولر بینچ ان کی سماعت کا اختیار کھو بیٹھا تھا۔ سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں سابق ڈپٹی رجسٹرار کی انٹرا کورٹ اپیل پر تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا۔ جاری حکمنامے میں نہ صرف سپریم کورٹ نے کمیٹی ممبران کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی غیر موثر اور کالعدم قرار دے دی ہے بلکہ اس حوالے سے جاری ہونے والے تمام احکامات بھی ختم کر دئیے ہیں۔
