محمد علی مرزا کے خلاف فتوے پر نظریاتی کونسل مشکل میں

اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے معروف عالم دین انجینئر محمد علی مرزا کو بظاہر توہین رسالت کا مرتکب قرار دینے کا فتوی شدید عوامی تنقید کی زد میں آ گیا ہے۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے اس طرح کے فتوے اس کونسل کے قیام کے بنیادی مقاصد سے متصادم ہیں۔
یاد رہے اسلامی نظریاتی کونسل نے نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی کی جانب سے بھیجے گئے ایک مراسلے پر یہ فتوی دیا ہے کہ مذہبی سکالر انجینیئر محمد علی مرزا کے بیانات ’فساد فی الارض‘ کا باعث بنے ہیں اور وہ بظاہر توہین رسالت کے مرتکب نظر آتے ہیں۔
عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل براہِ راست محمد علی مرزا کے کیس میں مداخلت نہیں کر سکتی، البتہ حکومت چاہے تو اس سے رائے یا سفارش طلب کر سکتی ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا بنیادی کردار مشاورتی ہے، یہ کونسل آئینِ پاکستان کے تحت حکومت اور پارلیمان کو ایسے قوانین اور پالیسیوں پر ایسی سفارشات دیتی ہے جو قرآن و سنت کے مطابق ہوں۔ لیکن اس کے پاس انتظامی یا عدالتی اختیارات نہیں۔ یعنی اگر کسی بھی فرد کا معاملہ قانونی یا عدالتی نوعیت کا ہے تو اس میں اسلامی نظریاتی کونسل مداخلت نہیں کر سکتی۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ انجینیئر محمد علی مرزا کا کیس بھی اسی نوعیت کا ہے۔ توہینِ مذہب کے کیس میں اسلامی نظریاتی کونسل براہِ راست مداخلت نہیں کر سکتی۔ ماہرین کا کہنا یے کہ نظریاتی کونسل عمومی طور پر مذہبی افکار یا اختلافات پر بطور ادارہ "رائے” دے سکتی ہے لیکن کسی فرد کو سزا دینا، بری کرنا یا قانونی کارروائی روکنا اس کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ واضح رہے کہ 26 اگست کو جہلم کے تھانہ سٹی میں انجینیئر محمد علی مرزا کے خلاف ایک شہری کی درخواست پر توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کر لیا گیا تھا۔
پولیس کے مطابق مقدمہ دفعہ 295 سی کے تحت درج کیا گیا۔
تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 سی پیغمبرِ اسلام ﷺ اور مذہبِ اسلام کی توہین پر لگائی جاتی ہے جس کی سزا پاکستان کے قانون کے مطابق سزائے موت ہے۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد سے پاکستان میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد کو ماورئے عدالت قتل کیا جا چکا ہے۔ چونکہ توہین رسالت کی سزا موت ہے لہذا مذہبی جتھے قانون اپنے ہاتھ میں لے کر موقع پر توہین رسالت کے ملزم کو گرفتاری سے پہلے ہی ختم کر دیتے ہیں۔ ایسے میں اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے ایک معروف عالم دین کے خلاف توہین رسالت کا فتوی دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔
یاد رہے کہ انجینیئر محمد علی ڈپٹی کمشنر جہلم کے حکم پر تھری ایم پی او کے تحت جیل میں نظربند ہیں لیکن ان کے خاندان کے افراد اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ یاد رہے کہ تھری ایم پی او کا قانون پاکستان میں حکومت کو ایسے افراد کی حفاظتی حراست کے لیے وسیع اختیارات دیتا ہے جنھیں عوامی تحفظ یا نظم کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ قانون ایک طے شدہ مدت کے لیے کسی بھی شخص کی گرفتاری اور نظربندی کی اجازت دیتا ہے، جسے بڑھایا جا سکتا ہے۔
اس سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا کہ کونسل کے چیئرمین علامہ راغب نعیمی کی زیر صدارت اجلاس میں محمد علی مرزا کے خلاف کیس کا تفصیلی جائزہ لیا گیام بظاہر وہ توہین رسالت کے مرتکب نظر آتے ہیں۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ محمد علی مرزا کے بیانات پر پاکستان کی مسیحی برادری کو بھی ایک مراسلہ بھیجا جائے گا تا کہ وہ تحریری طور پر واضح کریں کہ محمد علی مرزا نے پیغمبر اسلامﷺ سے متعلق جو باتیں کی ہیں، کیا اُن کی مذہبی کتب کے مطابق اُن کی یہ رائے ہے یا نہیں؟‘
کونسل کے مطابق ’نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی کی جانب سے کونسل کو بھیجا گیا مراسلہ جانب داری کا تاثر دیتا ہے کیونکہ اس میں مدعی کی طرف سے جمع کرایا گیا تحریری مواد اور فتوے شامل نہیں کیے گئے۔ محمد علی کو حراست میں لینے سے متعلق جہلم پولیس کے ترجمان عمر سعید کا کہنا تھا کہ انتظامیہ نے یہ فیصلہ اُس درخواست پر کیا، جو ڈسٹرکٹ پولیس افسر، جہلم کے نام تحریر کی گئی۔
اس درخواست میں انجینیئر محمد علی مرزا کی جانب سے ایک انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے الزام عائد کیا گیا کہ اُن کے کچھ کلمات نے ’مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح‘ کیے۔ درخواست گزار نے اِسی بنیاد پر محمد علی مرزا کے خلاف قانونی کارروائی کی استدعا کی تھی۔
ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس چودھری شہباز ہنجرا کے مطابق ’ڈسٹرکٹ جیل میں اُن سے اُن کے وکلا اور اہلخانہ کے سوا کوئی اور ملاقات نہیں کر سکتا کیونکہ یہ ایک حساس مذہبی معاملہ ہے اور انسانی جان کی حفاظت ہمارے لیے سب سے اہم ہے۔‘نانھوں نے بتایا تھا کہ 3 ایم پی او کے تحت نظربندی پولیس و ضلعی انتظامیہ کا فوری اقدام تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ متنازع مذہبی بیان کا یہ معاملہ زیرتفتیش ہے اور اگر محمد علی مرزا تفتیش میں قصوروار پائے گئے تو ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا جا سکتا ہے۔ محمد علی مرزا کی طرف سے تاحال کسی کو وکیل مقرر نہیں کیا گیا اور نہ ہی فی الوقت اُن کے خلاف تھری ایم پی او کے حکمنامے کو چیلنج کیا گیا ہے۔
