مصطفیٰ قتل کیس: ملزمان ارمغان اور شیراز کے جسمانی ریمانڈ میں 5 روز کی توسیع

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے مصطفیٰ عامر قتل کیس میں گرفتار ملزمان ارمغان اور شیراز کے جسمانی ریمانڈ میں 5 روز کی توسیع کرتے ہوئے پولیس کے حوالے کردیا۔
کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں مصطفیٰ عامر کے اغواء اور قتل سےمتعلق کیس کی سماعت ہوئی،دوران سماعت تفتیشی افسر کی جانب سےملزمان کے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔
تفتیشی افسر نےکہاکہ ارمغان کے 2 ملازمین کا 164 کا بیان ریکارڈ کرانا ہے،ملزم ارمغان کےگھر سے ملنےوالے اسلحے اور لیپ ٹاپ کا فرانزک کرانا ہے۔
دوران سماعت ملزم ارمغان کمرہ عدالت میں گرگیا،اس موقع پر ملزم ارمغان کو بینچ پر بٹھایا اور پانی پلایاگیا، عدالت نے ملزم ارمغان سے سوال کیاکہ آپ کچھ کہنا چاہتےہیں؟
ملزم ارمغان کمرہ عدالت میں رونےلگ گیا جب کہ ملزم ارمغان کو دیکھ کر اس کا والد بھی رونےلگ گیا۔
پراسکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایاکہ ہائی کورٹ اور اے ٹی سی ٹو میں بھی ملزم ایسے ہی گرگیا تھا،ملزم ارمغان کا میڈیکل کرایاگیا تو بالکل فٹ تھا۔
ملزم ارمغان نےالزام لگایاکہ مجھے کھانا بھی نہیں دیا جارہا۔
ملزم ارمغان کی والدہ کی جانب سے طاہر رحمٰن تنولی نےوکالت نامہ پیش کردیا جس پر عدالت نے ملزم ارمغان سے سوال کیاکہ کیا یہ آپ کے وکیل ہیں؟ملزم ارمغان نے کہاکہ نہیں یہ میرے وکیل نہیں ہیں،پہلےبھی مجھ سے دھوکےسے دستخط کرائے گئے تھے۔
ملزم شیراز کے وکیل نے کہاکہ شیراز کا اس کیس سے تعلق نہیں ہے بغیر لیڈی پولیس اہلکار کے ملزم کےگھر چھاپہ مارا گیا، شیراز کی بہن کا لیپ ٹاپ بھی پولیس ساتھ لےگئی،مجھے وکالت نامہ دستخط نہیں کرانے دیاگیا۔
دوران سماعت عدالت نے ملزم شیراز کا طبی معائنہ کرانےکی بھی ہدایت کردی، عدالت نے ملزم شیراز سے ملاقات کےلیے بہن کی درخواست واپس کردی،ملزم شیراز کی بہن کے وکیل نے ملاقات کی درخواست جمع کروائی تھی۔
بعد ازاں عدالت نے مصطفیٰ عامر قتل کیس میں گرفتار دونوں ملزمان شیراز اور ارمغان کےجسمانی ریمانڈ میں 5 روز کی توسیع کے احکامات جاری کر دیے۔
یاد رہےکہ ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتےہوئے بتایا تھاکہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا،مقتول کی والدہ نے اگلےروز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔
25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپےتاوان کی کال موصول ہونے کےبعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیاگیا تھا۔
بعد ازاں اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کر دی تھی جس کے نتیجےمیں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیاتھا۔
ملزم کو کئی گھنٹےکی کوششوں کےبعد گرفتار کیا گیا تھا،جس کےبعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کےلیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کےبجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا،جس کےخلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔
ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیاتھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کےبعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنےبیان سے منحرف ہوگیاتھا۔
بعد ازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سےملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھاکہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کےبعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لےجانے کے بعد نذرآتش کر دی تھی۔
پی ٹی آئی احتجاج کے نام پر انتشار پھیلاتی ہے: بیرسٹر عقیل
ملزم شیراز کی نشاندہی کےبعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جب کہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلےہی برآمد کر کے رفاہی ادارے کےحوالے کر چکی تھی جسے امانتاً دفن کر دیا گیا تھا،مصطفیٰ کی لاش ملنے کےبعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
تفتیشی افسران کےمطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کےبعد لاش ایدھی کےحوالے کی تھی، گرفتار کیاگیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا،قتل کےمنصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔
کراچی پولیس کا کہنا تھا کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تا حال نہیں ملا ہے،ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات،آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سےمزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔
بعد ازاں پولیس نےلاش کے پوسٹ مارٹم کےلیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبرکشائی کا حکم جاری کر دیا تھا۔