صدر ٹرمپ کیلئے نوبل امن انعام: پاکستان نے بونگی ماری یا چالاکی دکھائی؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر اور آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک سے ملاقات کے بعد پاکستان کی جانب سے ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کے فیصلے پر متضاد آراء سامنے آ رہی ہے۔ لیکن اس فیصلے نے ایک مرتبہ پھر واضح کر دیا ہے کہ جناح کی تخلیق کردہ ریاست میں داخلی اور خارجی فیصلہ سازی کا اصل مرکز طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے اور موجودہ ہائبرڈ سسٹم کے تحت چلنے والی سویلین حکومت برائے نام ہے۔

پاکستان کی جانب سے ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کو جہاں ایک جانب ناقدین بونگی قرار دے رہے ہیں وہیں سفارتی حلقے اسے ایک شاطرانہ فیصلہ قرار دے رہے ہیں جس نے بھارت کو چاروں شانے چت کر دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نوبل امن انعام کے لیے نامزد ہونے کے بعد ٹرمپ نہ تو خود ایران پر حملے کی غلطی کریں گے اور نہ ہی اسرائیل کا ساتھ دیں گے۔ پاکستان نے ٹرمپ کی نامزدگی کرتے ہوئے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے کہ انہوں نے دو نیوکلیئر طاقتوں کے مابین ایک ممکنہ خوفناک جنگ رکوانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے، لہذا جنگیں رکوانے والے ٹرمپ کے لیے نوبل امن انعام کے لیے نامزد ہونے کے بعد کسی جنگ کا حصہ بننا مشکل ہو گا۔ یہی وہ باریک واردات ہے جو پاکستان نے کی ہے، یعنی امن انعام کے لیے نامزد کر کے پاکستان نے ٹرمپ کے ہاتھ باندھنے کی کوشش کی ہے اور ساتھ ہی انہیں خوش بھی کر دیا ہے۔

18 جون 2025 کو وائٹ ہاؤس میں ایک غیر معمولی دن قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اس سے پہلے کبھی کسی امریکی صدر نے کسی حاضر سروس پاکستانی چیف آف آرمی سٹاف کی خصوصی میزبانی نہیں کی۔ دونوں ممالک کے درمیان کئی دہائیوں پر پھیلے فوجی تعاون کے باوجود اس نوعیت کی ملاقات کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
یہ ملاقات خاص طور پر اس لیے بھی دلچسپ تھی کیونکہ صدر ٹرمپ نے کیبنٹ روم میں ظہرانے کے لیے عاصم منیر سے نجی نوعیت کی ملاقات تب کی کہ جب اسرائیل اور ایران کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کے ایک بڑی جنگ میں تبدیل ہونے کے خطرات میں اضافہ ہورہا ہے۔

یہ بات قابلِ غور ہے کہ اس ملاقات میں پاکستان کے کسی سویلین نمائندے نے شرکت نہیں کی۔ نہ سفیر، نہ وزیر خارجہ۔ صرف آرمی چیف اور پاکستان کے اعلیٰ انٹیلی جنس افسر لیفٹیننٹ عاصم ملک جو قومی سلامتی کے مشیر ہیں، اس ظہرانے میں موجود تھے۔ امریکہ کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ، سیکریٹری آف سٹیٹ سینیٹر مارکو روبیو اور مشرق وسطیٰ کے امور کے خصوصی ایلچی سٹیو ویٹکوف نے بھی اس ملاقات میں شرکت کی۔ اس میٹنگ میں موجود لوگوں کی مختصر تعداد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ملاقات کتنی اہم اور سنجیدہ تھی اور اس میں کتنے اہم معاملات زیر بحث آئے ہوں گے۔ ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ نے تو میڈیا سے گفتگو کی لیکن پاکستانی سائیڈ بہت محتاط رہی۔ دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ اس ملاقات کے بعد پاکستان نے باقاعدہ صدر ٹرمپ کو پاک اندیا جنگ رکوانے پر امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کر دیا یے۔ صدر ٹرمپ کو نوبل پیس پرائس کے لیے ایک ایسے وقت میں نامزد کیا جا رہا ہے جب وہ مشرق وسطی میں تباہی مچانے اور ایران پر حملہ آور ہونے والے اسرائیل کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہیں اور خامنہ ای کو قتل کی کھلی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے امریکہ اور پاکستان کے درمیان غیرمعمولی تواون کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اگرچہ ملاقات ایک گھنٹے کے لیے طے تھی لیکن یہ دو گھنٹے سے زائد جاری رہی جو مذاکرات کی گہرائی اور دوطرفہ دوستانہ ماحول کی عکاسی کرتی ہے‘۔ آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ ’پاک-امریکا تعلقات نے گزشتہ تین دنوں میں وہ حاصل کیا جو بھارت تین دہائیوں میں حاصل نہیں کر سکا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوج اس ملاقات کو سیکیورٹی معاملات پر پاکستان کی مرکزی آواز کے طور پر اپنے اہم کردار کے ثبوت کے طور پر دیکھتی ہے۔ آئی ایس پی آر نے مزید زور دے کر کہا کہ ٹرمپ اور عاصم منیر ملاقات نے امریکی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ دے دیا ہے، پاکستان کو اب دوبارہ سے سٹریٹجک اہمیت دی جا رہی ہے۔

ملاقات کے بعد ٹرمپ نے اس خیال سے اتفاق کیا کہ پاکستان ایران کے معاملے میں معنی خیز حصہ ڈال سکتا ہے خاص طور پر جب بات ایران کو سمجھنے کی ہو۔ ملاقات کے اگلے روز دفتر خارجہ نے ایران اسرائیل جنگ کے بارے سرکاری مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے وضاحت پیش کی۔ دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے کہا، ’اسرائیل، ایران میں جو کچھ کر رہا ہے، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ یہ مہذب رویے، بین الریاستی تعلقات، بین الاقوامی قوانین اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا، ’ایران کے لیے حمایت ہمارا بنیادی مؤقف ہے۔ یہ واضح اور پختہ ہے۔ کوئی پاکستانی شہری یا حکومت کبھی بھی اسرائیل کی حمایت نہیں کر سکتی‘۔

جب یہ سوال دباؤ ڈال کر پوچھا گیا کہ آیا پاکستان ایران کی فوجی مدد کر سکتا ہے یا نہیں تو شفقت علی خان نے ہچکچاتے ہوئے کہا، ’ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔۔۔ ہمیں ایران سے فوجی مدد کی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی‘۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دراصل پاکستان اس وقت انتہائی نازک صورت حال سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان کا محتاط متوازی ردعمل، تنازعات کے ساتھ اس کی اپنی تاریخ سے جڑا ہے خاص طور پر بھارت کے ساتھ اس کے مشکل اور کشیدہ تعلقات اور ان کے درمیان جوہری جنگ کا مستقل خطرہ اس کی وجہ ہے۔

ابھی پچھلے مہینے ہی پہلگام میں ایک حملے کے بعد دونوں ہمسایہ ممالک تقریباً مکمل جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔ تب صدر ٹرمپ نے دونوں ممالک میں بیچ بچاؤ کرواتے ہوئے جنگ بندی کروائی تھی۔ تب بھی پاکستان کی جانب سے فیصلہ سازی آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ہی کی تھی کیونکہ یہ ایک خالصتا فوجی معاملہ تھا۔ تاہم معاملہ فوجی ہو یا سویلین، یہ ایک حقیقت ہے کہ جناح پاکستان میں اصل فیصلہ ساز اس کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے، اسی لیے امریکی صدر نہ تو پاکستانی صدر سے ملنے کا خواہش مند ہوتا ہے اور نہ ہی وزیراعظم سے، اور وہ وائٹ ہاؤس میں ظہرانہ بھی آرمی چیف سے فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی پانے والے جنرل عاصم منیر کو ہی دیتا ہے۔

Back to top button