75 برس سے سیکیوٹی پالیسی کے بغیر چلنے والا نیوکلئیر پاکستان

حکومت پاکستان کی جانب سے نیشنل سکیورٹی پالیسی منظور کرنے کی خبر سامنے آئی تو یہ حیرتناک انکشاف ہوا کہ پاکستان دنیا کی واحد نیوکلیئر ریاست ہے جو 75 برس سے قومی سلامتی کی پالیسی کے بغیر ہی چل رہی تھی۔ یاد رہے کہ ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی جنوری 2020 میں تشکیل دی گئی ہے۔
کپتان حکومت کا دعویٰ ہے کہ ملکی تاریخ میں اس انتہائی اہمیت کے حامل معاملے کو پہلی بار ایک منظم پالیسی کی شکل دی گئی ہے۔ مگر حزب اختلاف اس پالیسی پر یہ کہتے ہوئے تنقید کر رہی ہے کہ ملکی سلامتی کے معاملے میں پارلیمنٹ جیسے انتہائی معتبر ادارے سے مشورہ تک نہیں کیا گیا اور صرف فوجی قیادت سے صلاح مشورے پر ہی اکتفا کیا گیا ہے۔ دوسری جانب حکومت کے عہدیداروں کا موقف ہے کہ پارلیمنٹ کی سکیورٹی سے متعلق کمیٹی کے ساتھ اس بارے مشاورت کی گئی تھی۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ قومی سلامتی پالیسی ہوتی کیا ہے؟پاکستانی کی ‘پہلی قومی سلامتی پالیسی’ کے خد و خال کیا ہیں؟ کون کون سے شعبوں اور معاملات کو اس میں اہم خیال کیا گیا ہے؟ ریاست اور عوام کے کن مفادات کو کس طرح کے خطرات لاحق ہیں، کہاں کہاں سے چیلنجز کا سامنا ہے اور ہو سکتا ہے، آگے بڑھنے کے لیے کن راستوں کا تعین کیا گیا ہے۔ ایسے بہت سے سوالوں کے جواب اب تک واضح نہیں۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ اس پالیسی میں شامل کون کون سے پہلو قومی راز کے طور پر ’کلاسیفائیڈ‘ رہیں گے اور کیا کچھ عوام کے سامنے لایا جائے گا۔ تو آئیے پہلے جانتے ہیں کہ علمی اعتبار سے قومی سلامتی پالیسی عموماً کن اکائیوں کا احاطہ کرتی ہے۔
دراصل قومی سلامتی کا مطلب ہے شہریوں اور ریاست کے مفادات کے تحفظ کی اہلیت کا حامل ہونا۔ ملک کی سلامتی و بقا اور علاقائی خود مختاری اور ریاست کے سیاسی، معاشی اور دیگر مفادات اور اس کی اقدار کا تحفظ۔ ماضی میں کسی بھی ملک کے حکمران کے عمل سے ظاہر ہوتا تھا کہ انکی پالیسی کیا ہے جبکہ جدید جمہوری دور میں اسے ایک پالیسی دستاویز کے طور پر رقم کیا جاتا ہے اور مختلف ملکوں میں اس کی ہیئت مختلف ہو سکتی ہے۔ بعض جگہوں پر یہ پالیسی صرف سکیورٹی معاملات کا تعین کرتی ہے، جبکہ بعض ملکوں میں اس کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے۔
قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی پالیسی پر سات سال سے کام ہو رہا تھا، ہم نے قومی سلامتی پالیسی پر از سر نو کام کر کے اسے مرتب کیا ہے جو کہ تاریخی کامیابی ہے۔ تاہم سینیٹر جنرل (ر) عبدالقیوم اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں کہ یہاں پہلی بار نیشنل سکیورٹی پالیسی بنائی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نیشنل سیکورٹی پالیسی پہلے بھی ہوتی تھی۔ اب نام تبدیل ہوا ہے۔ پہلے ڈیفینس کمیٹی آف کیبنٹ یعنی ڈی سی سی تھی۔ پارلیمنٹ میں معاملات پر بحث ہوتی تھی اور وہاں سے جو تاثر بنتا تھا اس پر خارجہ اور دفاع سے متعلق پالیسی بنتی تھی۔ انہوں نے واضح کیا کہ مسلم لیگ نواز کے دور حکومت میں توانائی کے بحران، معیشت کے مسائل اور دہشتگردی کے خطرات دیکھتے ہوئے باقاعدہ مفصل بحث ہوئی اور اقدامات کیے گئے۔ نیکٹا جیسا ادارہ بنا، دہشتگردی کے خلاف آپریشن ہوا، خصوصی عدالتیں بنائی گئیں۔ کئی دہشتگردوں کو سزائیں دی گئیں۔ ان کے بقول یہ سب کچھ قومی سلامتی پالیسی کے ہی تابع تھا۔
اگلے آرمی چیف کی تعیناتی ملکی سیاست کا محور کیوں بن گئی؟
لیفٹینینٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم نے چالیس سال پاکستان کی فوج میں خدمات انجام دی ہیں اور اب ملکی سینیٹ میں مسلم لیگ نواز کے رکن ہیں۔ عبدالقیوم نے کہا کہ ملکی معیشت ہو یا دفاع، سائبر سکیورٹی کے معاملات ہوں یا فوڈ سکیورٹی کے، ملک کی اندرونی سلامتی کا مسئلہ ہو یا خارجہ پالیسی اور دفاع کا، ان تمام معاملات پر سب سے پہلے پارلیمنٹ کے اندر مفصل گفتگو ہونا ضروری ہوتا ہے اور اس گفتگو میں جو ماحول بنتا ہے، اس کو اگر قومی سلامتی کی دستاویز کا حصہ بنایا جائے تب ہی وہ ایک اجتماعی شعور اور پوری قوم کی امنگوں کی نمائندہ دستاویز ہوتی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک کابینہ بیٹھے اور اتنے اہم ڈاکومنٹ کو منظور کر کے اعلان کر دے کہ ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی بن گئی ہے۔
تاہم تحریک انصاف والے اپوزیشن کی تنقید کو بے جا قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول ’’ یہ کہنا کہ پارلیمنٹ سے مشاورت نہیں کی گئی، سیاسی بیان بازی ہے۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس بلایا تھا لیکن اس کا اپوزیشن نے بائیکاٹ کیا تھا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کابینہ بھی پارلیمنٹ ہی کی نمائندہ ہے۔ ’’کیا ہماری کابینہ اور وزیراعظم کیا پارلیمنٹ کا حصہ نہیں ہیں؟‘‘
لیکن پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے بھی قومی سلامتی پالیسی کی کابینہ سے منظوری پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے سب سے سپریم ادارے یعنی پارلیمنٹ سے اس بارے میں مشورہ نہیں کیا گیا اور صرف فوج سے مشورے کو ہی کافی سمجھا گیا۔ ان کا کہنا تھا ہمیں تو ٹیلی ویژن سے پتہ چل رہا ہے کہ قومی سلامتی کی پالیسی بن چکی ہے لہذا ہم ایسی کسی پالیسی کو نہیں مانتے جس کا پارلیمنٹ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
